بجوٹ

0
0

احمد رشید (علیگ)
گلی رہنٹ والا کنواں، سراے رحمن
علی گڑھ۔ ۲۰۲۰۰۱
اس ایک پل نہ روئی، نہ مسکرائی، میں حیران تھی مرد کی اس بے وفائی پر کہ پندرہ سال خدمت کے عیوض تحفہ میں طلاق ملی۔ عورت آدمی سے چھٗوٹے دیر یا سویر، چھوٗٹتی ضرور ہے کہ دونوں کا ساتھ عارضی ہے۔ زندگی خود عارضی ہے ایسا تو ہے نہیں کہ جوڑا ایک ساتھ مرے اور پھر قبریں برابر برابر بنیں، بعد میں دو درخت اس مٹی سے اُگیں ہوا چلے شاخیں پتّے رقص کریں، جھومیں گائیں، گلے لگائیں اور مسکرائیں — اولاد تو کہیں سے بھی اور کیسے بھی لائی جاسکتی ہے، گود لینا ہی ضروری تھوڑی ہے میری سہیلی منجو جو میری کلاس فیلو تھی، ہم راز بھی تھی لیکن ہم نوا نہیں اور ہم خیال بھی نہ تھی۔ اس نے نہ جانے کتنے قصّے سنائے یہ کہہ کر کہ کوئی مشکل نہیں، پریشان مت ہو! فلانی گنگا اسنان کرنے گئی اور گود بھر کر لائی… گنگا کے پانی کی تاثیر ہے بنجر دھرتی اُپجاؤ ہوجائے… گودہری ہوجائے — لیکن میرے لیے گنگا اسنان، گنگاجل کا وردان جائز تھوڑئی تھا۔ میں کیوں الزام دوں اپنے شریک ِحیات کو… نہیں … نہیں۔ شریک ِجزوقتی کو… جب قصور سب اپنا دکھائی دیتاہے۔ عورت ہوں تو اولاد کیوںنہیں؟ بنجر زمین پر ہل کتنا ہی لگے سرسبز نہیں ہوتی۔ گائے دودھ نہ دے، قصائی کے کھونٹے سے باندھ دی جاتی ہے، گھر کے کھونٹے سے بندھے مفت میں دانہ پانی کھائے، دھرتی کا بوجھ کہلائے — لیکن… لیکن عورت ہونا خدا ہونا، نہیں ہونا ہے… کیسے نادان ہوتے ہیں یہ مرد… صرف مرد ہی نہیں… عورتیں بھی… سب کے سب دشمنِ جاں …
’’بجوٹ کے سایہ سے بھی نویلی دلہن کو بچنا چاہیے‘‘ جیٹھانی نے کہا تھا۔
’’باجی… میں کوئی بھوت ہوں‘‘ سہمی ہوئی مسکراہٹ ہونٹوں پر۔
’’میں نے کب کہاکہ تم بھوت ہو… لیکن عورت بھی نہیں‘‘ فیصلہ کن لب و لہجہ۔
’’یہ سوچ سراسر بدعت ہے۔‘‘
’’حقیقت ہے… (وقفہ)… بجوٹ ہونا بدعت ہے۔‘‘
وہ کسمسائی اور سہمے ہوئے انداز میں بولی ’’امّی دھوپ لینے کے لیے چھت پر آگئی تھی، چچی جان پہلے ہی سے یہاں موجود تھیں۔‘‘
’’دلہن دھوپ زیادہ نہ لو، ہم نہیں چاہتے غیرضروری چیزوں سے پیٹ پھولے۔‘‘
دلہن بے دلی سے سرپٹ اُٹھی، زینہ اُترگئی… پیچھے پیچھے ساس بڑبڑاتی ہوئی چل دی۔ میں گُم صُم دھوپ میں بیٹھی تنہا رہ گئی۔ دھوپ چند لمحے پہلے رحمت تھی… سورج سمیت بدن میں داخل ہوئی اور سخت سردی میں دل و دماغ کو نارکی مانند جلانے لگی… سوچنے لگی بجوٹ ہونے میں میرا کیا قصور؟ دن رات جلنے کے لیے بجوٹ ہونا از خود نارِ جہنم ہے… زندہ رہنا بھی ہے اور جلنا بھی ہے — کیا میں اپنی مرضی سے بجوٹ ہوں؟ میرا بس چلے، صبح لڑکا، شام لڑکی پیدا کروں! ایسی برکت نازل ہوکہ آدمی کہے بس کر اﷲ، رزق کہاں سے آئے؟ اور اﷲ کہے رازق ہوں میں… رزق کے خوف سے اپنی نسل کو مت قتل کرو… اے خالق! مجھے تو افسوس ہوتاہے اپنے ہونے پر کہ مجھے تخلیق کار بنایا اور تخلیق سے ترسایا… ایسا سوچتے ہوئے میرے دو آنسو آنکھوں سے ڈھلکے… رُخساروں پر پھسلے… موتی کی طرح دامن میںچنے اور سٹ پٹ زینے سے اُترگئی… سورج بھی مغرب کی جانب آہستہ آہستہ اُتر رہا تھا، دھوپ سمٹ رہی تھی، سردی بڑھ رہی تھی۔ مگر دل و دماغ کی آگ ابھی تک سرد نہیں ہوئی ہے… جب بھی کریدو تو خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری اندھیرے میں جگنو کی طرح راستہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔
منجو کی ماں نے کہا تھا ’’بھائی صاحب صابرہ بڑی بھاگوان ہے۔‘‘
ابّاجی نے چونک کر دیکھا ’’صبر کرنے والوں کے ساتھ اﷲ ہوتاہے۔‘‘
میں نے پنڈت جی کو ہاتھ دکھایا تو بولے ’’بٹیا لکشمی پر سوئے گی، دودھو نہائے گی پوٗتو پھلے گی۔‘‘
ابّا جی نے ایک اچٹتی سی نگاہ منجو کی امّی پر ڈالی اور گہری آنکھوں سے سر سے پاؤںتک مجھے دیکھنے لگے۔ منجو کی امّی اس سمے چپ چاپ چلتی بنیں ویسے بھی وہ ابّا جی کی عزت کرتی تھیں اور ڈرتی بھی تھیں۔ وہ دروازے کو عبور کرنے تک انھیں گھورتے رہے۔
’’ہتھیلی دکھانا گناہ ہے‘‘ وہ بڑبڑائے۔ مخاطب ہوکر بولے ’’تم نے تو ہاتھ دکھانا شروع کردیے… تھوڑی دیر خاموشی رہی… جو ہاتھ دکھاتے ہیں، منھ دکھانے کے لائق نہیں رہتے… اب تم دسویں درجہ میں ہو… عمر کے چودھویں سال میں ہو… چودھویں چاند کی طرح خوب صورت ہو… غیرمرد کے ہاتھ میں یوں ہاتھ نہیں پکڑا دیتے۔‘‘
’’جی ابّا جی۔‘‘
’’مرد کا سب کچھ اچھا ہوتا ہے، نظر خراب ہوتی ہے۔‘‘
’’مطلب، بینائی۔‘‘
’’بینائی نہیں… آنکھ… حفاظت کرو اپنی اور اپنی آنکھوں کی۔‘‘
میں نے سنا گرہ باندھا، آج تک گرہ نہ کھولی… میں سوچنے لگی منھ دکھانے کے لائق نہیں رہتے سے کیا مطلب ہے؟ شکل بھی ایسی بُری نہیں… روز آئینہ دیکھتی تھی… ہرزاویہ سے دیکھتی ہوں… نیچی نگاہ ڈال کر سامنے سے دیکھتی ہوں… آئینہ کے جانب کمر کرکے ترچھی نگاہ سے پشت کی طرف دیکھتی تھی… سہیلیاں کہتی تھیں تم بہت خوب صورت ہو… حسن کے معاملہ میں خودبینی و خودآرائی نہ ہو، تو خوب صورتی بے معنی ہوجاتی ہے… ابّا کہتے تھے خوب صورتی ڈھک کر رکھو… جو بھی نظر ڈالتا ہے، بُری ہی نظر ڈالتاہے… بوڑھی نظر بھی خوب صورت موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی… خوب صورتی نظر میں رہے محفوظ رہتی ہے اور نظرہی محظوظ بھی ہوتی ہے۔
شادی خوب صورتی اور جوانی کا محفوظ ٹھکانہ ہے۔ شادی ہوئی، شادی کا سنِ بلوغت پر ہونا والدین کے فرائض کی ادائیگی، جوانی کی کوئی بھول والدین کے سر نہ جائے، باز پُرس سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے…
’’بس ایک بچہ دے دو… میری نسل کا چراغ گل نہ ہونے پائے۔‘‘ شادی کی پہلی رات بے چاری ساسوامّی کا بس یہی ایک مطالبہ۔
’’کہاں سے لاتی…؟ کیا یہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘
اب سوچتی ہوں کاش بچہ، میں جہیز میں لے جاتی… خیر سے دولت و جائداد نصیب میں نہیںہے ورنہ وارث مانگتے، اور بھیج دیتے گنگا اسنان کو — رات ہوچکی تھی، ستارے کالی چادر پر ٹنکے تھے، سوچ رہی تھی کوئی ایک ستارہ آسمان سے اُترے، میری کوکھ میں داخل ہو اور میرے اندھیرے آنگن میں روشنی کردے۔ اچانک بادلوں کی اوٹ سے چاند نمودار ہوا، میں اس کی آہٹ سے چونکی۔ ’’عارف تمہاری بھابی بجوٹ کو بھوت کہتی ہیں۔‘‘
’’صابرہ… بھوت اسے کہتے ہیں جو دوسروں کو ستائے۔‘‘
میں مسکرائی اور عارف کے گلے کا ہار بن گئی۔ ’’میری عافیت تنگ کررکھی ہے، اُٹھتے بیٹھتے طعنے… میرا جینا مشکل کردیاہے۔‘‘ آنکھیں بھیگ گئیں۔
عارف نے میرے آنسو سمیٹے۔ ’’یہ عالمِ کون و فساد ہے، چند روزہ ہے رات کا سینہ چاک کرکے سحربیدار ہوتی ہے۔‘‘
’’میں کون عاقبت کے بورے سمیٹ رہی ہوں۔‘‘
’’دیکھو مالک ِکون و مکاں عاصم ہے، وہ سب کچھ دیکھ رہاہے۔‘‘ عارف نے سمجھایا۔
’’بے شک… انسان کو ربّ نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا۔ اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو وہ فرعون بن بیٹھا۔‘‘
’’انسان غرورِ نفس میں مبتلا ہے‘‘ عارف نے کہا۔
’’طلوعِ آفتاب کی حد نہیں دیکھتا۔‘‘
ایک روز، غروبِ آفتاب کے وقت سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا تھا ، میری آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب رہی تھیں۔ رات سوچنے، سونے اور رونے کے لیے بنی ہے۔ رونے کے اس طوفان میں آنکھیں صاف ہوئیں۔ دل کا کچھ بوجھ ہلکا ہوا۔
’’صبح عاقر بجوگی بنگالی بابا کے پاس چلیں گے۔‘‘
’’یہ ایک بابا ہے یا تین‘‘ میں نے ہنستے ہوئے سوال کیا۔
’’ارے بھئی ایک ہی بابا ہے۔‘‘
’’بنگالی بابا کیا کریںگے؟‘‘
’’چنتا ہر ڑن کریںگے۔‘‘
’’مطلب خود عاقر، دوسروں کی گود بھریںگے، خود بجوگی پھربھی چنتا ہڑن کہلائیںگے۔‘‘ میری ہنسی کمرے میں گونج گئی تھی۔
’’ارے بھئی ہوتا ہے، کائنات کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، سورج کو نہیں، پھربھی سورج چمکتاہے۔‘‘
عارف نے کچھ اس طرح سے کہا تھاکہ میں خاموش ہوگئی۔ موسم کا تعلق دل سے ہوتاہے۔ دل اُداسی کے سیاہ بادلوں سے گھرا تھا، ذہن میں جگنو جل بجھ رہے تھے اور آنکھوں سے رم جھم بھی ہورہی تھی۔ خیال آیا تہجد کے معنی نیند توڑنے کر اُٹھنے کے ہیں لیکن میری پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی اور نیند اپنی مخملی چادر میں مجھے نہ لپیٹ سکی تھی۔ بڑی حجت کے بعد اُٹھی، وضو کیا چار رکعت نوافل ادا کیے… دست ِدعا دراز کیے… اے کون ومکاں کی باخبر ہستی، تو نے بِنا ماں باپ کے آدم، بِنا ماں کے حو ّا، بِنا باپ کے عیسیٰؑ کو بنایا۔ اپنی نظرِخلق کی قوت سے کُن کا کرشمہ میری کوکھ میں ڈال دے کہ میری شب، روز کی روشنی میں ڈوب جائے۔‘‘ بہتے ہوئے زارو قطار آنسوؤں کی دھار سے صبحِ کاذب کی گہری لکیر کٹی، صبح صادق نمودار ہوئی، فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تیار ہوئی، عارف بھی اُٹھ چکا تھا۔
دونوں بنگالی بابا کی طرف چل دیے چوںکہ ٹوکن اشراق سے پہلے بٹتے ہیں، دیر ہونے پر بنگالی بابا بیماروں اور بدحالوں کو نہیں دیکھتے، چاہے کتنی ہی ہنگامی ضرورت ہو۔ ایک عجیب سیکولر منظر وہاں طاری تھا۔ گیرورنگ کے لباس میں ملبوس ایک لحیم شحیم، مٹکے کی طرح پیٹ کرسی پر رکھے شخص کی بڑی بڑی آنکھیں حلقہ سے باہر نکلی پڑرہی تھیں، بیٹھا تھا۔ ایک چوڑی چکلی میز پر مختلف رنگوں کی پرچیوں کی گڈیاں رکھی تھیں، ایک چھوٹی سی لکڑی کی پیٹی جس پر ’’دان دیں‘‘ اردو اور ہندی میں لکھاتھا۔ بائیں جانب انسانوں کی لمبی قطار کی طرف ماتھے پر لگے کالے تلک سے اشارہ کرتا۔ ہرشخص اپنی پریشانی بتاکر ایک رنگ کی پرچی لیتا، پیٹی میں سو کا نوٹ موڑکر ڈالتا، موہ جال سے بچنے کا درس لیتا، آگے اندر کی طرف بڑھ جاتا۔ عارف نے بھی اپنی ضرورت کے مطابق ہرے رنگ کی پرچی لی، میرے ہاتھ سے سو کا نوٹ پیٹی میں ڈلوایا… اس مختصر وقت میں سادھو نے سرسے پاؤں تک اپنی آنکھوں کے فیتہ سے پیمائش کرلی باوجود اس کے کہ میں برقع میں تھی جس کو ابّا نے یہ کہہ کر پہنوایاتھاکہ نظر بد سے حسن کی حفاظت اور شریعت کی پابندی کے لیے یہ ضروری ہے، لیکن ان آنکھوں سے کیسے بچاجائے جن میں ایکسرے لینس لگے ہوں۔
کوریڈور سے نکل کر جیسے ہی صدر دروازے سے عارف کے ساتھ اندر داخل ہونے کی کوشش میں آگے بڑھی، بائیں جانب سفید کرتے پائجامہ میں ملبوس کالے رنگ کی گول ٹوپی جس پر تقریباً چوبیس لکیریں بنی تھیں سرپر رکھے، ایک شخص بیٹھا تھا۔ سامنے چھوٹی سی چوکی پر رکھے رجسٹر پر نام اور رسید نمبر اندراج کررہاتھا۔
دوسرے مرحلے سے گزرنے کے بعد ایک وسیع و عریض کمرے میں داخل ہوئے۔ دروازے کے دائیں طرف ایک تخت جو دیوار سے سٹا ہواتھا، جس پر ایرانی قالین بچھی تھی، دیوار پر پنج تن پاک کا کلینڈر اور اسی کے برابر مکان اور دوکان کی برکت کا تعویذ دیوار پر ٹنگا تھا۔ تخت پر زعفران کی دوات اور تین قلم اور دو انچ چوڑی کاغذ کی پیٹیوں کا بنڈل رکھاتھا۔ دیوار سے چپکی مسند سے کمر لگائے ایک سیاہ فام، سیاہ باریش، ہرے کُرتے پائجامے میں ملبوس سرپر سبزرنگ ٹوپی لگائے شخص بیٹھاتھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں تسبیح، شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے اشارے سے صندل کے دانے پلٹ رہا تھا۔ اس کی بند آنکھیں وا ہوئیں، ساکت ہونٹ ہلے، ’’سرپٹک کر مایوسی کی پوٹلی کھولنے آج آئی ہو‘‘ بابا نے لعن کیا۔
’’بابا جب مصیبت سر پر آن پڑتی ہے تو خیرات بٹنے لگتی ہے‘‘ عارف نے اظہارِ شرمندگی کیا۔
بابا نے میری طرف دیکھا۔ ہاتھ میں ہری پرچی پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نیچے تک اُترنے کی کوشش کرتے ہوئے ’’کوکھ سوٗنی ہے‘‘ بابا نے انغاض کیا۔
میں سمجھ نہیں پائی کہ اظہارِ تعجب یا مذاق اڑانے کے لیے سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کو ہلارہے ہیں۔ اس وقت تو میں بھی حیرت زدہ ہوگئی تھی کیوںکہ ضرورت اور مصیبت پتھر کو بھگوان بنا دیتی ہے۔ اب جب کہ ہرمصیبت اور ضرورت سے نجات مل چکی ہے۔ ہری پرچی گود ہری کی، سفید پرچی روزگار کی، سرخ پرچی بیماری کی نشانی ہے۔
رات گئی، بات گئی۔ ایک تعویذ برہنہ جسم پر مَل کر جلانے کا، ایک پیٹ پر باندھنے کا، ایک کانچ کی بوتل میں ڈال کر صبح و شام پانی پینے کا۔ تعویذ ملے، تعویذ بندھے، تعویذ پئے۔ چھ مہینے علاج چلا، پھر وہی ڈھاک کے تین پات عاقر جو خود لاولد ہے تو کسی کو کیوں کر ولد بنا سکتاہے، وہ بجوگی ہے دوسروں کو کیسے مصیبت سے نجات دلا سکتاہے، جو خود کنگال ہے دوسروں کو تعویذوں کے ذریعہ دھن وان کیوںکر بنا سکتاہے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی ذہن کی پٹاری میں پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ ان کے پاس تو آدمی ہرگھر در سے مایوس ہونے کے بعد ایسے پہنچتا ہے کہ دشت ِبے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔ اس کے باوجود درِ خالق پر دعا اپنی جگہ ہوتی رہی۔ کارگزاری اپنی جگہ چلتی رہی۔اگر رب چاہے سایہ پھیلادے، دائمی سایہ بنادے، سورج تو صرف ایک دلیل ہے جیسے جیسے سورج اٹھتاجاتاہے وہ سائے کو اپنی طرف سمیٹتا چلا جاتاہے۔ ایک دن سورج سمٹ گیا تھا، نیلے آسمان کا رنگ سرخ سے سیاہ مائل ہوگیا تھا، جھٹ پٹے کے بعد۔ مشہور ڈاکٹر جاوید جو بے اولادوں کے علاج میں ماہر تھے، بڑے ہی خوش اخلاق، خوش پوش انسان تھے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ڈاکٹر کا پُرمذاق طبیعت کا ہونا مریض کا آدھا درد دور ہوناہے۔ نہ جانے کتنی ہی سونی گودوں کو آباد کردیا۔ دولت اور شہرت کماکر دور دراز شہروں میں ناموری کمائی۔ دنیا میں عزت پانے کے لیے یوں تو دولت ہی کافی ہوتی ہے اگر شہرت مفت میں مل جائے تو کیا ہرج ہے۔ پھر دولت راستہ نکالتی ہے شہرت کا۔ اولاد کی تمنا لیے ہم نے کلینک کے لیے راہ نکالی۔ ڈاکٹر نے بڑی احتیاط اور تجّرنگاہی سے ایک ایک ٹسٹ کیا۔ دوسرے دن رپورٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے ٹکا سا جواب ’’آپ باپ نہیں بن سکتے۔‘‘ میں آج بھی یہ سوچ کر حیران ہوںکہ مرد جب باپ نہیں بن سکتا تو عورت کیسے ماں بن جائے گی؟ یوں تو کُن سے دنیا فیکون ہوگئی، لیکن آنکھیں کھول کر جب ذرا اس زمین کی روئیدگی دیکھتی ہوں تو ٹکڑے ٹکڑے بادل آسمان پر آہستہ آہستہ باہم جڑتے ہیں پھر ایک کثیف ابر بنتاہے اور بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے۔ اکثر کثیف بادل ایک دوسرے میں سمٹنے کے بعد بھی زمین بارش سے محروم رہ جاتی ہے۔
…………
موسلادھار بارش ہونے کے بعد، تھوڑی دیر رم جھم ہوئی۔ باد ل پھٹ گیا، مطلع صاف ہوگیا رونے سے جیسے آنکھیں صاف ہوتی ہیں۔ ہوا کی خوش خرامی سے موسم خوش گوار ہوگیا ہے۔ عارف کا دل ایک بے معنی خوشی کے احساس سے بلّیوں اچھل رہاہے۔ سلمہ نے بڑے چاؤ سے بیٹے کو تیار کیا جو آؤٹنگ کے لیے بہ ضد تھا۔ عارف نے موٹرسائیکل نکالی، حمزہ کود کر بیک گدی پر بیٹھ گیا۔ دس کلومیٹر چلنے کے بعد چوکوبار آئس کریم کھانے کی غرض سے جیسے ہی دائیں جانب گاڑی کو ٹرن کیا سامنے جاوید کلینک بورڈ پر نظر گئی، بریک لگائے اور غیرارادی طورپر اس کے قدم اس میں داخل ہوگئے۔
’’آئیے مسٹر عارف‘‘ ڈاکٹر جاوید نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔
’’آپ سے تقریباً چھ سال کے بعد ملاقات ہورہی ہے۔‘‘
’’اور عارف صاحب کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’مزے کی…‘‘ جاوید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’بچہ آپ ہی کا ہے۔‘‘
’’کوئی شک ‘‘ عارف نے مسکراتے ہوئے بچہ سے سلام کرنے کو کہا۔
’’نہیں… نہیں، آپ کی بیوی کہاں ہے، پھر تو وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’میں نے دوسری شادی اپنی سکریٹری سے کرلی تھی۔‘‘ تھوڑے وقفہ کے بعد… ’’وہ ایک شوخ مزاج، بہت خوب صورت عورت ہے۔ آپ ملیںگے… خوش ہوںگے۔‘‘
’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں بچہ کو دیکھ کر ماں کی خوب صورتی کا اندازہ ہوجاتاہے‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب، میری سونی زندگی میں بہار لوٹ آئی ہے۔‘‘
’’یوں کہیے آپ کی پھیکی زندگی میں رنگینی لوٹ آئی ہے۔‘‘
آپ نے کہا تھا ’’آپ باپ نہیں بن سکتے؟‘‘
’’لیکن میں نے یہ نہیں کہا تھاکہ آپ کی بیوی ماں نہیں بن سکتی‘‘ ڈاکٹر مسکرایا۔ تھوڑی دیر کے لیے ماحول میں خاموشی طاری ہوگئی۔
’’امّی سے پیار کرتے ہو یا پاپا سے۔‘‘ ڈاکٹر نے بچے کو مخاطب کیا۔
’’امّی تے‘‘ بچے نے اپنی توتلی زبان میں کہا۔
’’پاپا سے نہیں کرتے؟‘‘
’’ہاں … دونوں تے۔‘‘
’’آپ کی پہلی بیوی کا کیا ہوا؟‘‘ ڈاکٹر نے کریدتے ہوئے پوچھا۔
’’ضروری نہیں ہے بنجر زمین کی آبیاری کی جائے… میں نے اسے طلاق دے دی۔‘‘ عارف نے کہا۔
’’آپ نے بُرا کیا‘‘ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ عارف نے بے زاری کا اظہار کیا۔
’’کیوںکہ تمہاری پہلی بیوی ایک صابر، محتاط اور خود محفوظ عورت تھی۔‘‘
میز پر رکھی ہوئی الحیاتین سیرپ کی بوتل پر بچے کا ہاتھ لگنے سے نیچے گرگئی۔ اچانک چھناک کی آواز ہوئی، ڈسپنسری کی خاموشی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھرگئی… بچہ سہم گیا،’’ پاپا چلئے‘‘ بے ساختہ اس کے منھ سے نکلا۔
mmm

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا