نجمہ نکہت کی فکشن نگاری

0
0

نہاں نورین (نور)ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو ،یونی ورسٹی آف حیدرآباد

اُردو زبان و ادب کی خدمات میں خواتین کی خدمات بے لوث ہیں۔ جو ان کی سیاسی اور سماجی بصیرت، علمی شغفت اور شعور کی پختگی کا بین ثبوت ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے عورت کے جذبات، احساسات اور اپنے جذبہ ایثار کو ہمیشہ سے ہی بڑی فن کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ افسانے کے ابتدائی نقوش سے ہی خواتین ادیبایں اردو ادب کے افق پر نظر آتی ہیں۔ ان کا مقصد محض اپنی نمائندگی نہیں بلکہ عصری تقاضوں کے تحت سماج کو سجانے، سنوارنے اور نابرابری کے خاتمے کا جذبہ بھی موجود ہے۔ ہر افسانہ نگار کا اسلوب الگ الگ ہوتا ہے۔ اسلوب ہی کے ذریعے افسانہ نگار ایک دوسرے سے الگ دکھائی دیتی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ اسلوب ہوتا ہے اور اسلوب کی مثال لباس کے مانند ہے۔ جسم خوبصورت اور صحت مند ہو لیکن اگر لباس گند اور نامناسب ہو تو کوئی بھی شخصیت پر کشش نہیں بن سکتی اسی طرح افسانہ کا موضوع کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اگر اسے اچھے اور مناسب ادبی اور معیاری اسلوب میں پیش نہ کیا جائے تو اس میں تاثر کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایک ایسی ہی خاتون جن کے افسانوں میں تاثر پایا جاتا ہے۔ ان کا نام ہے نجمہ نکہت……
آزادی کے بعد حیدرآباد کی نثر نگار خواتین میں نجمہ نکہت کا نام سرفہرست ہے۔ نجمہ نکہت کا شمار حیدرآباد کی معروف افسانہ نگار خواتین میں ہوتا ہے۔وہ انجمن ترقی ہند کی سیکریٹری بھی رہی ہیں۔ وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار تھی۔ ان کے افسانے حقیقت پر مبنی ہوتے تھے۔ نجمہ نکہت کے آباواجداد کا تعلق بادشاہ جہانگیر کے سلسلے سے چلا آرہا ہے۔ ان کے دادا سید حسین اترپردیش لکھنو میں رجسٹرار ہائی کورٹ تھے۔ ان کے والد سید سراج الحسن بھی پیشہ وکالت سے وابستہ تھے۔ ان کی والدہ زیب النساء بیگم دین دار خاتون تھی۔ نجمہ نکہت 24 مئی 1936 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے بزرگوں نے ان کا نام چاندنی بیگم رکھا اور والدین نے جیلانی بیگم رکھا۔ جب نجمہ نکہت پندرہ سال کی ہوئی تو انہوں نے اپنی مرضی سے اپنا نام جیلانی بیگم سے بدل کر نجمہ نکہت رکھا۔ ان کی پہلی تصنیف ’’وہ راتیں‘‘کے نام سے افسانہ ماہنامہ ’’جادو‘‘ جو بھوپال سے نکلتا تھا اس میں شائع ہوئی۔ جس کو کوثر چاند پوری نکالتے تھے. نجمہ نکہت بچپن ہی سے ذہین تھیں۔ انھوں نے 15 برس کی عمر سے لکھنا شروع کیا اور ان کے افسانے قومی اور بین الاقوامی رسالوں میں شائع ہونے لگے تو خوشی کی انتہا نہ رہی اس سے ان کا حوصلہ بلند ہوا،لکھنے کا ذوق بڑھتا گیا کئی ایڈیٹر اور مصنفوں کے خطوط نے انہیں لکھنے پر مجبور کردیا۔ اس بارے میں ان کے بھائی ڈاکٹر حامد حسین لکھتے ہیں کہ :
جیلانی بیگم جب تیرہ چودہ سال کی تھی تو ایک دن کسی اخبار کا تراشا لیے میرے پاس آئی جس میں ایک چھوٹی سی خوبصورت کہانی چھپی تھی۔ جسے کسی نجمہ نکہت نے لکھا تھا۔ جب میں نے کہانی نویس کے متعلق پوچھا تو اس نے ہلکے سے کہا ’’جی یہ میں ہوں‘‘ اس طرح ادبی دنیا کے لیے وہ نجمہ نکہت ہوگئی لیکن خاندان کے ہر فرد کے لیے وہ صرف چاند تھی جو تا حیات اپنی چاندنی بکھیرتی خود ہی کہیں غائب ہوگئی۔
نجمہ نکہت کو بچپن ہی سے تعلیم کا شوق تھا. ان کی ابتدائی تعلیم مفید الانام کوٹلہ علی جاہ حیدرآباد میں ہوئی۔ عربی اور اردو کی تعلیم گھر پر ہوئی وہ پڑھنے میں ذہین اور سمجھدار تھیں۔ میٹرک کے امتحان کے وقت نجمہ نکہت نہایت ہی بیمار ہوگئیں تب ان کے بھائی ڈاکٹر حامد حسین نے ایک ٹیوٹر کو گھر میں رکھ کر تعلیم دلوائی۔ نجمہ نکہت نے پی یو سی تک کی تعلیم پرائیویٹ حاصل کی۔ نجمہ نکہت کی ملاقات لکھنو کے بہت بڑے رئیس جاگیردار شیخ احمد حسین قدوائی سے ہوئی اور یہ ملاقات محبت میں تبدیل ہوگئی فروری 1935 کو شادی ہوئی۔ ان کی ازدواجی زندگی بہت خوشحال تھی لیکن ورنگل سے آتے آتے ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ نجمہ نکہت نے اپنے زندگی میں بہت سے نشییب و فراز دیکھے اور ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز ان کے افسانوں کے خاص موضوعات ہیں۔ نجمہ نکہت کا اولین افسانوی مجموعہ ’’سیب کا درخت‘‘ ہے اور ایک غیر مطبوعہ گیارہ افسانے ہیں۔ مجموعہ سیب کا درخت پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ 1)کھنڈر 2)سایہ 3)پھتر اور کونپل 4)دو ٹکے کی 5)اس رہگزر پر 6)آخری حویلی 7)ایر کنڈیشنر 8)پھر وہی صبح پھر وہی شام 9)سیب کا درخت 10)شبنم اور انگارے 11)وہ دونوں 12)سیکنڈ ہینڈ 13)دھندلے نقوش 14)ریشمی قمیص 15)
درد میں افسانہ ’’دو ٹکے کی‘‘ موضوع کے اعتبار سے عورت کی سماجی حیثیت اور اس کی بے بسی کی کہانی ہے۔ نجمہ نکہت نے جاگیردارانہ نظام میں عورتوں کی زندگی، طرزِ معاشرت اور مسائل کی تصویر کشی جس انداز میں کی ہے وہ قابلِ داد ہے۔ اس افسانے کی نمایندگی ندا کرتی ہے. ندا کے ماں باپ بچپن میں گزرجاتے ہیں۔ جب ماں کے گذرنے کے بعد چاچی پْرسے کے لیے دیہات سے آتی ہے تو کپڑے تو کپڑے برتن اور ضروری اور اچھے سامان کے ساتھ ندا کو بھی لے جاتی ہے۔ سارے گھر کا کام دن رات ندا سے لیتی اوپر سے طعنے دیتی کہ اگر تجھ کو گھر سے اْٹھا نہ لاتی تو جانے تو کہاں ہوتی۔
افسانہ کھنڈر میں بتایا گیا کہ حشمت جہاں جو اس کہانی کا کردار ہے اس کی زندگی ایک شاہانہ انداز سے گذر رہی تھی لیکن بعد میں وہ ایک بوسیدہ دیوڑھی کی گری ہوئی دیواروں کی طرح ایک کھنڈر میں تبدیل ہوگئی ۔ افسانے کا پلاٹ حیدرآباد کے زوال پذیر جاگیردارانہ نظام اور ایک وسیع محل کے نمائندہ خاندان اور اس کے درمیان کی آویزش اور کشمکش پر مبنی ہے۔ حشمت جہاں اس خاندان کی سربراہ ہے وہ ماضی کی یاد سے اپنی ویران زندگی میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی زندگی سنوارنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتی ہے۔حشمت جہاں کا کردار نا مساعد حالات سے سمجھوتہ اور ناگوار حقائق سے عبارت ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں خادم کی طرح زندگی گزارتی ہے وہ اس کھنڈر میں ایک کٹھ پتلی کی مانند ہے جو اپنے درمیان ایک توازن قائم کرتی ہے اور اپنی زندگی سے اس قدر بے زار ہوچکی ہوتی ہے کہ اپنی زندگی سے سمجھوتہ کرنے اور شکست میں ہی وہ اپنی فتح سمجھتی ہے۔ جب کہ وہ اپنے گھر میں خود اکیلی ہے۔ حالانکہ یہاں سب کچھ اس کا اپنا ہوتے ہوئے بھی پرایا ہے۔ کوئی ایک فر بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے وہ اپنا کہہ سکے۔ سہاگ، بچے، گھر، نوکر چاکر کوئی بھی ایسا نہیں اپنا کہہ سکے۔
اس افسانے کا بیشتر حصہ زوال پذیر جاگیردارانہ نظام پر مشتمل ہے۔ پلاٹ بے حد مربوط ہے۔ جس میں واقعات کی ترتیب ان کا ارتقاء و انجام ہے۔ نجمہ نکہت کے کچھ افسانوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوچکے ہیں اور مختلف رسائل میں شایع ہوچکے ہیں۔ صبا ایوان چراغ شاہراہ دہلی، آندھراپردیش، حیدرآباد، ادب لطیف لاہور دو شیزہ کراچی وغیرہ میں شایع ہوئے ہیں۔ ان کے مجموعے ’’سیب کا درخت‘‘ کو اردو اکیڈمی آندھراپردیش کی جانب سے ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے ان کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ ان کے تمام تر افسانوں میں جذبے کی شدت ہے۔ نجمہ نکہت نے نے عورتوں کی تعلیم و تربیت خانگی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور اسی طرح کے دوسرے مسائل کو اپنے قلم کا موضوع بنایا۔ افسانوں کا ذکر کریں تو خواتین افسانہ نگاروں کی ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ نجمہ نکہت کے موضوعات کا کینوس بڑا وسیع ہے جو چیز نجمہ نکہت کو دوسرے افسانہ نگاروں سے منفرد رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے افسانوں کے بیشتر کردار، واقعات اور مناظر سب سے پہلے قاری کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جدید افسانوں کی صف میں ان کا مقام الگ ہے۔
نجمہ نکہت نے موضوعاتی اور فنی و تکنیکی ہر طرح سے افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ساے ان کا ایسا افسانہ ہے جس میں زندگی کی حقیقت، تجربہ اور سبق آموز نصیحت ہے جس میں صبر کا پھل میٹھا ثابت ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک خواتین کے لئے خصوصا افسانہ نگار خواتین کے لئے بہت سازگار ثابت ہوئی۔ ان کے افسانوں نے جدید ادب کے ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ نجمہ نکہت نے اپنے افسانوں میں ماضی اور حال کے رشتے کو تلاش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں ٹوٹتی ہوئی قدریں، بدلتے معاشرے میں خاندانوں کی زبو حالی جیسے ملتے ہیں۔ مجموعی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو نجمہ نکہت کے تمام افسانے متاثر کن، دلچسپ اور نصیحت آمیز ہیں۔ اس میں نفسیاتی مشاہدہ موجود ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔ اپنے فن سے خود کو ادب میں روشناس کروایا۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کی دنیا میں نجمہ نکہت کا ایک مقام ہے انہوں نے اپنے قلم پر اپنی مضبوط گرفت کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں میں جاگیرداری میں استحصال کا شکار ہونے ہونے والے کرداروں کے حالات، نفسیاتی، پیچیدگیاں معاشی پستی، اخلاقی گراوٹ اور زندگی کا کرب ملتا ہے۔ اس نظام کے اختتامی کرب کو نہایت عبرت انگیز طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ کے بعد نیی نسل کی جدوجہد، طوفان سے ابھرنے کی کیفیت پرانی ذہنیت کے خطرناک پہلو نیک اور اچھے مقاصد کے پیچھے کام کرنے والی جاگیردارانہ پالیسی کو بلا جھجک افسانہ کھنڈر میں بتایا گیا۔ سماجی مسائل کا عکس ان کے افسانوں میں ابھرتا ہے۔
نجمہ نکہت اْردو کے نسائی ادب میں وہ فکشن کے حوالے سے بہت بلند مقام پر نظر آتی ہے اور یہ مقام انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل پر حاصل کیا۔ ان کے افسانوں کا جائزہ لیں تو نجمہ نکہت کبھی اپنے عورت ہونے کو کمزوری نہیں سمجھا بلکہ اسے اپنی تخلیقی قوت بنایا ہے۔ انہوں نے تا حیات اپنی زندگی میں صرف اور صرف ’’کام‘‘ ہی کئے۔ ان کے افسانوں میں زیادہ تر تنہائی میں خود سے مکالمہ کرنے والی ضرورتیں نظر آتی ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار میں سماجی اور مذہبی خدمت کا پر جوش جذبہ پایا جاتا ہے۔ نجمہ نکہت کا ذہن تخلیقی ذہن تھا۔ وہ نہ صرف فنکار تھیں بلکہ انسانیت کی عظیم فنکار تھی۔
نجمہ نکہت دکن کی ایک منفرد افسانہ نگار تھیں۔ وہ اعلیٰ قدر اوصاف کی حامل تھیں۔ ملنسار خوش گفتار، تنہائی پسند اور سادگی پسند تھیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے سماج میں ہونے والے ظلم و ستم، فرقہ پرستی اوہام پرستی کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے سماج کو ان برائیوں سے پاک کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے انہوں نے اپنے قلم سے مردانہ مقابلہ کیا۔نجمہ نکہت کو اپنے فن سے والہانہ محبت تھی وہ پورے خلوص سے لکھتی تھیں۔ جن مسائل کو وہ محسوس کرتی تھی اس کا گہرائی سے اپنے افسانوں میں ذکر کرتی تھیں۔ ان میں ڈوب جاتی تھیں۔ کوئی مسئلہ اپنے ہاتھ میں لیتی تو اس کو پورے سیاق و سباق اور جزئیات کو بھی ملحوظ رکھتی تھیں۔ چونکہ ان کو اپنے شوہر کے ساتھ گاوں میں رہنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کے بیشتر افسانوں میں گاوں کے کھیت کھلیانیں، فصلیں جھرنیں، نہریں آب وہوا کا خوبصورت بیان ملتا ہے۔ گاوں کے لوگوں کا نفسیاتی جایزہ لیا گیا۔ نجمہ نکہت کو مناظر قدرت سے فطری لگاو تھا اس لیے ان کے افسانوں میں نیچرل منظر نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا منظر قارئین کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک میں شامل رہنے کی وجہ سے وہ سماجی برائیوں کی طرف متوجہ ہویں۔
نجمہ نکہت کو 19 اگست کو قلب پر حملہ ہوا۔ انہیں جب دواخانہ میں شریک کیا گیا تو آخری وقت میں بھی ان میں کچھ کر دکھانے کا عزم و حوصلہ تھا۔ علالت کے وقت جب وہ دواخانے میں شریک ہوئیں تو ضروریات کی چیزیں کم اور کتابیں زیادہ رکھوادیں اور اپنی بیٹوں سے کہا کہ میں رہوں یا نہ رہوں دوسرا افسانوی مجموعہ شائع کروادینا۔ ان میں شاید اور کچھ لکھ کر اضافہ کرکے شائع کروانے کی تمنا باقی تھی مگر وقت کے ہاتھوں انسان مجبور، لاچار و بے بس ہوجاتا ہے.

 

*****

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا