از….. تسنیم فرزانہ
بنگلور
9743802320
دورِ قدیم سے دنیا کے ہر خطے میں عورت مظلوم رہی ہے اکثر مذاہب نے عورتوں کے متعلق پست خیالات کا اظہار کیا ہے جس کی بنا پر عورت کو انسانیت کے کندھے پرایک بار یا بوجھ سمجھا گیا تھا . دور جدید میں نشاۃ ثانیہ کے بعد جب زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب آیا تو تو عورت کی آزادی اور مساوات کا تصور ابھرا.
بیسویں صدی کے اوائل میں جب صنعتی ترقی کا ظہور ہوا اور اس کا پھیلاؤ بڑھا تو الگ الگ تہذیبوں ک ملاپ سے مختلف نظریات وجود میں آنے لگے تب اہل یورپ کوعورت کی ازلی مظلومیت کی انتہائی حدوں کا گہرا احساس ہو تو انہوں نے اس کا مداوا کرنے کے لئے آزادء نسواں کے حق میں دلائل فراہم کئے
اس کے نتیجے میں آزادء نسواں کی بہت سی تحریکیں پروان چڑھیں
19090 فروری 28 کا سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا یومِ خواتین منایا
1910 کو کوپن ہیگن. میں سوشلسٹ میٹنگ نے ایک عالمی یومِ خواتین کی بنیاد ڈالی جس میں انہوں نے خواتین کے حقوق اور ووٹ ڈالنے کی مانگ کی اس فیصلے کا خیر مقدم تقریباً 17.. ممالک سے 100 خواتین نے بھرپور تائید کی جس کے نتیجے میں فن لینڈ میں 3 خواتین ممبر پارلیمنٹ بنیں
اسی طرح کی بہت ساری تحریکات وقتاً فوقتاً ابھرتی رہیں جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو "عالمی یومِ خواتین” منانے کا اعلان کیا اور اس دن کو عالمی سطح پر مساوات مرد و زن اور امن و سلامتی کے حصول میں؛ ایک سنگ میل قرار دیا
ان تحریکات سے جو نظریات حاصل ہوئے اور جن پر نئی مغربی معاشرے کی بنا رکھی گئی اور دور حاضر میں بھی اس پر عمل آوری ہو رہی ہے وہ یہ ہیں
عورتوں اور مردوں کی مساوات
عورتوں کا معاشی استقلال
دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط
عورت کو ان چیزوں کی وجہ سے سماجی زندگی میں تھوڑا بہت فائدہ ہوا لیکن ہم ذرا ٹھہر کر غور کرتے ہیں تو ہمیں چند باتیں اظہر من الشمس نظر آتی ہیں
مساوات کے معنی یہ سمجھ لئے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبہ اور انسانی حقوق. میں مساوی ہیں،بلکہ تمدنی زندگی میں بھی عورت وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں، مرد کے لئے اخلاقی بندشیں جس طرح ڈھیلی ہیں اسی طرح اس کے لیے بھی ہوں
مساوات حاصل کرنے کی جدوجہد نے عورت کو اس کے فطری مسائل سے غافل کر دیا ہے
اب وہ انتخابات کی جدوجہد، دفتروں و کارخانوں کی ملازمت تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں کے ساتھ مقابلہ کرنے، کھیلوں، سوسائٹی اور کلب کے پروگراموں میں اسٹیج، رقص و سرود کی محفلوں کی مصروفیات میں اس طرح الجھ گئی کہ اسے ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں، بچوں کی تربیت، خاندان کی خدمت، گھر کی تنظیم کا کچھ ہوش نہیں رہا
معاشی استقلال نے عورت کو مرد سے بے نیاز کر دیا قدیم اصول تھا کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام سنبھالے اب وہ بدل گیا دونوں کمائیں اور گھر کا نظم بازار کے حوالے کر دیا جائے
جو عورت آپنی روٹی آپ کماتی ہو اپنی ضروریات کی کفیل ہو اپنی زندگی میں دوسرے کی حفاظت واعانت کی محتاج نہ ہو وہ کیوں کسی کی پابند رہے گی؟
اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ خواتین تجرد پسند بن گئیں جن کی زندگیاں آزاد شہوت رانی میں بسر ہونے لگیں
مناکحت کے رشتے میں بھی پائیداری نہیں رہی زوجین ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز ہوگئے، خواتین آپسی تعلقات میں کسی مراعاتِ باہمی اور مدارات compromise کے لئے تیار نہیں ہیں
نتیجتاً اس کا اتمام طلاق یا تفریق پر ہوتا ہے
منعِ حمل، قتلِ اولاد، شرحِ پیدائش کی کمی اور ناجائز اولاد کی بڑھتی ہوئی تعداد اسی معاشی استقلال کی رہینِ منت ہے
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیر معمولی ترقی کی طرف گامزن کر دیا، صنفی میلان جو پہلے ہی فطری طور پر موجود رہتا ہے اس آزادانہ میل جول سے اور بڑھ گیا
،مردوں کے لئے مقناطیس، اور جاذب نظر بننے کی خواہش نے عورت کواتنا آگے بڑھا دیا کہ شوخ و سنگ لباسوں نئے نئے فیشن، میک اپ کی نت نئی اشیائ سے اس کی تسکین نہیں ہوئی تو کپڑے بھی چھوٹے کر دئے اور اس کو آرٹ کا نام دے دیا گیا
یہ چیز گھن بن کر نوجوان نسل کی ذہنی و جسمانی قوتوں کو کھا رہی ہے،
اس کے نتیجے میں انسان کو وہ امن و سکون اور سکون میسر نہیں ہے جو تعمیری و تخلیقی کاموں کے لئے درکار ہے، یہی نہیں ایسے ہیجانات کے درمیان خصوصاً نوجوان نسل کو وہ ٹھنڈی و پر سکون فضا میسر ہی کہاں ہے جو ان کی ذہنی و اخلاقی قوتوں کی نشو و نما کے لئے ضروری ہے
بدکاری، بے حیائی اور امراض خبیثہ کی بڑھوتری میں بھی اس آزادانہ اختلاط کا بڑا دخل ہے
آزادیٔ نسواں کا نعرہ لگا کر اور مردوں کے. قابلے میں آگے جانے کی سوچ لے کر عورت نے خود کو ایک دوراہے کھڑا کر لیا ہے
اس نے اپنے ہمہ جہت کردار سے غفلت برتنی شروع کر دی ہے، ماں بہن بیٹی کی حیثیت سے اس کے رول میں کوتاہی نظر آتی ہے گھر اور خاندانی نظام بکھر رہا ہے آزادی کے نام پر ،الٰہی تعلیمات سے دوری دوری اور خدا بیزار تہذیب پروان چڑھ رہی ہیاور آزادانہ زندگی کو ترجیح دی جا رہی
یومِ خواتین کے موقع پر دنیا بھر میں women Empowerment کے نام پر مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں جو افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں
اس موقع پر اسلام کے تصور امپاورمنٹ اور سماجی فعالیت کے نقطہ نظر کو درست انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے مذہب نے عورت کو اس کے حقیقی نسوانی رول کے لئے قوت بخشی ہے اور اس کے لئے مواقع، قوتیں اور سہولیات عطا کی ہیں جواس رول کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے _اسے ان ذمہ داریوں سے محفوظ رکھا ہے جو اس کے لئے دوہرے بوجھ کا باعث اور اس کی نسوانی ذمہ داری سے ٹکراتا ہو
دین کا تصور بیداری مغرب کے تصور سے مختلف بھی اور مکمل بھی ہے
اسلام عورت سے اس کی نسوانیت نہیں چھینتا ہے جب کہ مغرب اس میں فعالیت اور قوت تو پیدا کرتا ہے لیکن اس کی نسوانیت چھین کر اس کا نقصان کرتا ہے بلکہ بچوں کی تربیت، خاندان کی ذمہ داری جیسے رول سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی صحت مند سماج کے لئے نقصان دہ ہے
لہٰذا اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ آزادی اور فعالیت کے نام پر ہر نئی چیز قابل قبول نہ ہو بلکہ صحیح تصور پیش کیا جائے
عام نسوانی تحریکات کے مقابلے میں ہمیں کچھ خاص باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.
یومِ خواتین کے موقع پر عام نسوانی تحریکات مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش کی بات کرتی ہیں اور تمام قوت مردوں کی مخالفت میں صرف کرتی ہیں یہ مناسب رویہ نہیں ہے بلکہ اس موقع پر مردوں کو ذلیل کرنے کے بجائے عورت کی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش ہونی چاہیے
"کچھ اہم کام جو کیے جانے چاہیے”
اس موقع سے خواتین میں جو فعالیت پیدا ہوگی اس کے ذریعے کچھ اہم محاذ پر فوری و طویل مدتی کام کیے جانے چاہیے
ملک کی خواتین کی صورتحال کا صحیح تجزیہ کرنا اور اس کو حل کرنے کے لئے تدابیر پر مناسب لائحہ عمل پیش کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جدوجہد کرنا
طالبات ان مسائل پر تحقیقی کام کریں اور ملکی سطح پر بحثیں ہوں
قانونی اور انتظامی سطح پر بھی مسائل کے حل کے لئے کوششیں ہوں
خواتین اور ان کے مسائل سے متعلق عوامی سطح پر بیداری کا کام کیا جائے
کسی بھی مسئلہ کو صرف ایک فرقہ کا مسئلہ نہ جان کر پوری انسانیت کی بھلائی کا کام جانا جائے
اسلام نے عورت کو جو مقام عطا کیا ہے اور زندگی گزارنے کا جو درست طریقہ بتایا ہے اس سے تمام انسانوں کو واقف کرایا جائے۔