غزل

0
0

بشیر چراغ
سرینگر،کشمیر
پیشِ فضا زوال کا منظر ہے چُپ رہو
دستِ غبار طائرِ بے پر ہے چُپ رہو

تو یاد رکھ سکا نہ میرا ایک شعر بھی
تیرا ہر ایک خط مجھے اَزبر ہے چُپ رہو

چرچا نقب کا کر کے کہو فائدہ ہے کیا
سامان گھر کا سارا برابر ہے چُپ رہو

جنگل کہاں ہے رات کو اس شہر میں اُگا
یہ صف بہ صف شجر نہیں، لشکر ہے چُپ رہو

سائے گزر رہے ہیں ہوائوں کے درمیان
ہر خانہ بے دریچہ و بے گھر ہے چُپ رہو

جس میں کئی زمانوں کے ریزے ہیں بند اُسے
کس نے کہا کہ حاجتِ نشتر ہے چُپ رہو

ہمدردیوں کا جال بچھائے ہیں وہ چراغؔ
کچھ دلفریب اور بھی منظر ہے چُپ رہو

٭٭٭

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا