معیاربتاتاہے سرکاری رقومات لگانے سے زیادہ بچانے اورپچانے میں متعلقین زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں
ریاض ملک
منڈی؍؍ضلع پونچھ کے ساتھ ساتھ منڈی کے تعلیمی زون منڈی کے لوگوں نے سرکاری اسکولوں میں طلباء وطالبات وردیاں تقسیم کئے جانے کو مذاق سے تعبیر کیا ہے۔ صرف غریب بچوں کے لئے مختص ان سرکاری اسکولوں میں سرکار کی جانب سے ہر سال وردیوں اور وظیفہ کی کروڑوں کی رقم صرف کی جاتی ہے۔لیکن مقامی نے کہا کہ ایک طرف سرکاری خزانوں کو کروڑوں کا نقصان ہوتاہے دوسری جانب ان غریب بچوں کو بھی اس قدر فائدہ نہیں پہنچ پاتاہے۔ جس کو لیکر کئی لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کی غربت کے ساتھ مذاق کو بند کیا جائے۔محمد اسماعیل نے ذرائع سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کئی بچوں کو پچھلے دوتین سالوں سے وظیفے دینے کے دعوے کئے جارہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں۔ والدین اساتذہ سے پوچھتے ہیں ۔اساتذہ کہتے ہیں ہم نے کھاتے میںبھیج دیئے ہیں دوفتر والے بنک اور بنک میں والدین پریشان ہیں ان کے علاوہ پیر سرفراز احمد شاہ نے احوال کو کرتے ہوئے بتایاکہ سرکاری اسکولوں میں جو وردیاں دی گئی ہیں۔ ایسی وردیاں لوگ بھکاریوں کو بھی نہیں دیتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ غریب بچوں کے ساتھ اس دور میں بھی مذاق کیا جاتاہے۔ وردی طلباء وطالبات کو دی گئی ہے۔ اس کا کپڑا بالکل پتلا اور بے کار سیلائی اس قدر خراب کے اگر پہناجائے تو ایک دن یا دو دن اور سب سے بڑا جو مذاق کیا گیا ایک طرف سرکاری خزانوں کو نقصان دوسرا وردیوں کے سائیز بھی نہیں بے ترتیب وردیاں جن لڑکیوں کو 40 اینچ قمیض اور شلوار لگتی ہے۔ ان کی 25 یا 26 اینچ قمیض اور شلوار دی گئی ہے۔انہوں نے کہا منڈی کے تمام دیہی علاقوں میں گرمیوں کے صرف تین ماہ ہی ہوتے ہیں باقی ماہ سردی ہی سردی ہے لیکن پھر بھی بچوں میں ایسی وردی دئے جانے کا کیا مقصد ہے۔ اگر وردی دینی ہے تومنڈی کے ان تمام اسکولوں میں کچا اور موٹا کپڑا فراہم کیا جائے یا تو ان کی رقومات ہی واگزار کی جائے تاکہ یہاں کے طلباء وطالبات یہاں کے ماحول کے مطابق سلوا کر پہن سکیں۔اس کے علاوہ وظائف میں بھی پریشانیوں کو بیان کرتے ہوے کہا یہ وظیفہ نہیں بلکہ بچوں کے والدین اوراساتذہ کے لئے باعث مصیبت ہے۔ اساتذہ سارا سال اکونٹ لیتے اور ملاتے رہتے ہیں والدین بنکوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ نہ وظیفہ ہی اور نہ تعلیم ہی ہو پاتی ہے۔ انہوں ضلع ترقیاتی کمیشنر پونچھ اور چیف ایجوکیشن آفیسر پونچھ سے اپیل کی ہے کہ وہ وردیوں میں یہاں کے بچوں اور ان کے والدین کی سہولت کو ملحوظ خاطر رکھاجائے۔اس حوالے سے زونل ایجوکیشن پلاننگ آفیسر منڈی محمد اسلم کوہلی نے اپنے بیان میں کہاکہ گزشتہ دو تین سالوں سے منڈی کے قریب قریب تمام اسکولوں سے یہ شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔ جن پر کام ہوااور بچوں کا وظیفہ ان کے کھاتوںمیں ڈالاجاتارہاہے۔ لیکن پھر بھی لوگوں اور میڈیا کے حوالے سے شکائیت موصول ہوئی ہیں جس کے بعد انچارج زونل ایجوکیشن آفیسر منڈی نے یہاں ایک میٹنگ منعقد کرکے اس بارے میں اساتذہ کے ساتھ گفتگو شنید ہوئی جس کے بعد جموں وکشمیر بنک کے برانچ منیجر سے بات کی گئی تو پتہ چلا کہ جن بچوں کے اکائونٹ جاری نہیں بند ہیں ان کا ہی پیسہ نہیں پڑا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کا اکائونٹ زیرو بیلنس پر کھلا ہے اور چھ ماہ کھاتہ بند رہنے کی وجہ سے یہ مشکل پیش آئی ہے اب اس معاملہ کو لیکر بڑی محنت سے کام کیا جارہاہے جلد ہی ان بچوں کے وظائف بھی ڈال دئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ وردیوں کے بارے میں کہا کہ وردیاں یہاں سے نہیں بلکہ یہ پتہ کس طرح اس کو یہاں تک اعلی حکام نے پہنچایاہے ۔البتہ اس بار صرف بچوں اور بچیوں کی تعداد ہی طلب کی گئی تھی سائیز نہیں طلب کیا تھا جس کی وجہ سے یہ وردی لوگوں کی جانب سے نقص دار تصور کی جارہی ہے۔ البتہ ہم نے وردیوں کے سائیز کو لیکر اپنے آفیسروں کو مطلع کردیاہے۔