بسم اللہ تعالیٰ
ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد
9890000552
ملک کے موجودہ حالات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں، دن بدن مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، سی اے اے ، این آر سی، اور این پی آر کے عفریت نے تمام مسلمانوں کو اک ان دیکھے خوف میں مبتلاء کر دیا ہے، پورا ملک سراپااحتجاج بنا ہوہے۔جگہ جگہ شاہین باغ وجود میں آگئے ہیں، جہاں ہماری مائیں بہنیں بڑی جرات مندی کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اور پورے اعتماد،عزم اور حوصلہ کے ساتھ اپنی بات رکھ رہی ہیں، ان احتجاجات نے جہاں مسلمانوں کو متحد کرنے کاکام کیا ہے وہیں مسلمانوںکی قیادت کا دم بھرنے والے بہت سے نام نہاد قائدین کو بھی بے نقاب کر دیا ہے، نوجوان نسل اپنی قیادت خود کر رہی ہے۔ احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرنے والے افرادمیں ایک بڑی تعداد ایسے افرادکی ہے جن کا کوئی سیاسی بیک گرائونڈ ہے اور نہ ہی وہ مذہبی ٹھیکیدار ہیں۔عام مسلمان ہیں لیکن وہ ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں جو کسی عالم دین ،مفکر، اور قائد، گفتارکے غازی کی زبان سے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ ایک شخص، سیدھا سادہ مسلمان،نہ داڑھی نہ ٹوپی، نہ کرتا پائجامہ، نہ سوٹ بوٹ،نہ اس کے نام سے پہلے ڈاکٹر، پروفیسر، مولانا، محترم ،عالیجناب لکھا ہوا اور نہ اس کے نام کے آگے کوئی کلمہ تعظیم مد ظلہ عالی ودامت برکاتہُ لکھا ہوا ہے مگر اس نے جو باتیں کہیں اسے کوئی بھی حساس دل نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس نے مسلمانوںکی ان کمزوریوں کی طرف انگلی اٹھائی ہے جس کی وجہ سے ہماراتانابانا بکھرا ہوا ہے۔ہم ذلت و رسوائی کا شکار ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم یہجاننیکے بجائے کہ کیا کہا جارہا ہے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے۔ ہمیں یہ روش بدلنی ہوگی، فراست مسلمانوں کی متاع گم گشتہ ہے وہ جہاں کہیں سے ملے اُسیحاصل کر لینا چاہیے۔ اُس نا معلوم غیرمعروف خطیب کا فکر انگیز خطبہ من و عن قارئین کی نظرہے، پڑھیئے اور غورکیجیئے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ ملک کے موجودہ حالات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں، دن بدن مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، سی اے اے ، این آر سی، اور این پی آر کے عفریت نے تمام مسلمانوں کو اک ان دیکھے خوف میں مبتلاء کر دیا ہے، پورا ملک سراپااحتجاج بنا ہوہے۔جگہ جگہ شاہین باغ وجود میں آگئے ہیں، جہاں ہماری مائیں بہنیں بڑی جرات مندی کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اور پورے اعتماد،عزم اور حوصلہ کے ساتھ اپنی بات رکھ رہی ہیں، ان احتجاجات نے جہاں مسلمانوں کو متحد کرنے کاکام کیا ہے وہیں مسلمانوںکی قیادت کا دم بھرنے والے بہت سے نام نہاد قائدین کو بھی بے نقاب کر دیا ہے، نوجوان نسل اپنی قیادت خود کر رہی ہے۔ احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرنے والے افرادمیں ایک بڑی تعداد ایسے افرادکی ہے جن کا کوئی سیاسی بیک گرائونڈ ہے اور نہ ہی وہ مذہبی ٹھیکیدار ہیں۔عام مسلمان ہیں لیکن وہ ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں جو کسی عالم دین ،مفکر، اور قائد، گفتارکے غازی کی زبان سے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ ایک شخص، سیدھا سادہ مسلمان،نہ داڑھی نہ ٹوپی، نہ کرتا پائجامہ، نہ سوٹ بوٹ،نہ اس کے نام سے پہلے ڈاکٹر، پروفیسر، مولانا، محترم ،عالیجناب لکھا ہوا اور نہ اس کے نام کے آگے کوئی کلمہ تعظیم مد ظلہ عالی ودامت برکاتہُ لکھا ہوا ہے مگر اس نے جو باتیں کہیں اسے کوئی بھی حساس دل نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس نے مسلمانوںکی ان کمزوریوں کی طرف انگلی اٹھائی ہے جس کی وجہ سے ہماراتانابانا بکھرا ہوا ہے۔ہم ذلت و رسوائی کا شکار ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم یہجاننیکے بجائے کہ کیا کہا جارہا ہے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے۔ ہمیں یہ روش بدلنی ہوگی، فراست مسلمانوں کی متاع گم گشتہ ہے وہ جہاں کہیں سے ملے اُسیحاصل کر لینا چاہیے۔ اُس نا معلوم غیرمعروف خطیب کا فکر انگیز خطبہ من و عن قارئین کی نظرہے، پڑھیئے اور غورکیجیئے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ ’’بند کیجیے ڈرامہ بازی،ایک مسلمان کو ،اس کے سب کام اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اللہ کی مدد کے بغیرحالات سدھر نہیں سکتے، یہ ذلت،یہ رسوائی،یہ پستی سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے، عروج بھی اللہ ہی دے گا، سر بلندی بھی اللہ ہی دے گا،اور اس کا سیدھا سا فارمولاہے جو قوم متحد ہوتی ہے جو قوم ایک ہوکر رہتی ہے، مل جل کر رہتی ہے، اس پر اللہ کی مدد آتی ہے اتناآسان تو ہے، دیکھیے یہ بات بہت چیلنج سے کہتا ہوںمولانا،اتنے اندولن پھاندولن نعروں وعروںکی ضرورت ہی نہیں،تم تو اپنے د ل کو صاف کرلو،اس میں سے حسد بغض کینہ نکال دو، متحد ہو جائو،کسی کے بارے میں برا مت سوچو، ایک جان ہو جائو، اور گھر میں بیٹھ جائو،تمہارے حق میں فیصلے نہیں ہونے لگے تو بولنا یہ چیلنج ہے میرا، یہ سب لوگ ہم فالتو پریشان ہو رہے ہیں ایک با راس فارمولے کو اپنا کے دیکھنے میں پرابلم کیا ہے؟ کرونا یہ کوشش،ویسے بھی توکچھ ہو نہیں رہا، یہ کرو، اس آندولن کے لئے تمہیں اس دوست سے بات کرنا چاہیے جس سے بات چیت بند ہے، کہ تیری اور میری دشمنی اس آندولن سے بڑی نہیں،تیرا اور میرا یہ تکبر اس آندولن سے بڑا نہیں، اس وقت قوم ایک بڑی مصیبت میں ہے، اس آندولن کویقیناً اللہ کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ مدد جبھی آئے گی جب تیرا اور میرا دل صاف ہوگا،ہمیں یہ دل صاف کرنا ہوں گے،اس آندولن کے لئے بھی،ہماری بقاء اور تقدس کے لئے بھی، اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے تاکہ انہیں غلام نہ بنایاجائے،کیوںکہ پلاننگ تو وہی ہے، تمہاری تو زندگی کر دیے تباہ، بچی ہی کتنی ہے، آگے جو یہ نسل، یہ جو بچے ہیں یہ ہیں ٹارگیٹ، اپنی تو نکل گئی ، ارے این آر سی کرنے میں بیس تیس سال لگ جائیں گے مر مرا جائیں گے ہم جب تک،ان کی نظرتمہاری نسلوں پرہے،انہیں وہ غلام بنانا چاہتے ہیںاس قانون کے ذریعہ، ترس ان پر کھانا ہے، وراثت میں انہیں کچھ دے کر جانا ہے، اس کے لئے تمہیں اب وہ کرنا ہے جو تم نے اب تک نہیں کیا، اور اپنے ساماجک ڈھانچہ کو بھی سدھارو، بہت اپنے اپنے میں زندگی گزارتے ہو تم، بہت اپنے اپنے میں، تمہیں کسی سے لینا دینا نہیں ہے نہ اڑوس سے نہ پڑوس سے،ارے رشتہ داروں سے لینا دینا نہیں بچا یار، بھائی امیر اور بہن غریب،بھائی امیر بھائی غریب، یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ ایک بھائی پیسہ والا دوسرا بھائی غریب، یہ تو ڈھانچہ نہیں بنا کے دیا تھا میرے نبی نے،تمہیں خیر خواہی کرنا چاہیے، تمہیں جانا چاہیے، ملنا چاہیے ، حالات دیکھنا چاہیے اور غریب ہے تو تمہیں شرم آنی چاہیے،تم امیر اور تمہارا بھائی غریب،تمہارا رشتہ دار غریب، تو کر کیا رہے ہو تم؟ تمہاری کوئی ذمہ داری نہیںہے؟ اس سماج میں معاشرے میں جس کے پاس پیسہ ہے، صلاحیت ہے، معیشت ہے اس پر زیادہ ذمہ داری ہے لیکن ہم وہ حق ادا نہیں کرر ہے ہیں ،اچھا گھر بنالوں، انٹیرئر کرلوں، مہنگی کاریں لے لوں، اور زیادہ امیج بنانا ہو تو ہر سال عمرہ پر چلا جائوں، یہ دین سمجھ رکھا ہے ہم نے؟ پچاس ہزار کا عمرہ اور دیڑھ لاکھ کا کھانا کرتے ہیں، آنے میں الگ کھانا، جانے میں الگ کھانا، ہار بھی پہن لوں،بیٹا جنگ پے جارہا ہے؟ کیا کرنے جارہا؟عبادت کو تماشہ بنا رکھا ہے، اور کسی غریب کی چھت ٹپک رہی ہے، رات میںسونے میں پانی بھر رہا ہے اس کی چھت بدلنے کے پیسے نہیں ہے تمہارے پاس،کسی کی بہن بیٹیاں گھر میں ہیں ان کوعزت سے وداع کر دو، وہ نہیں کرو گے،کسی بچے کو پڑھائو گے نہیں ، کسی کو کاروبار نہیں ڈالو گے، بس حج عمرے اپنی وہ سمجھ رکھا ہے، یہ سسٹم بنا لیا ہے تم نے، پورا شجرہ بگڑا ہوا ہے بس،یہ سماج کی سن رچنا (تعمیر)اسلام نے نہیںکری تھی، جو ہم نے بنادی ہے، کسی کی طرف کوئی دیکھنے کو ہی تیار نہیں ہے، مددبھی کریں گے تو رمضان میں،تاکہ ستر گنا ملے، چھت آج ٹپک رہی ہے، پریشان آج ہے، وہ ننگے آج ہے، وہ بھوکے آج ہیں،پیسے چھ مہینوں بعد دو گے،یہ ہے آپ کا دینے کا طریقہ،ستر گنا؟ میں کہتا ہوں وہ رب ہے رب،تو اس کے بندے کو چھ مہینے پہلے دے دے، تو ستر کے چکر میںہے وہ سات ہزار گنا دے گا، وقت پے دے۔یہ سمجھو،آپ ایک دوسرے کو پوچھتے ہی نہیں پڑوسی کس حال میں ہے، پیار محبت سے بات کر لو،نہ خیریت پوچھتے ہیں نہ طبیعت پوچھتے ہیںنہ آتے ہیں نہ جاتے ہیں، کس کا بچہ کیا کر رہا ہے؟ تمہارے محلوں میں، مسلم بستیوں میں کتنا نشہ ہو رہا ہے، کرائم ہورہا ہے، بچیاں جو ہے جینس ٹی شرٹ پہن کر اندر ، اوپر برقعہ پہن کے جارہی ہے اورچوراہے پر جاکر برقع غائب اور وہ جینس ٹی شرٹ میں گھوم رہی ہے کوئی کچھ کہنے والا نہیں، کوئی کچھ سننے والا نہیں، اپنی اپنی کئے جائو، یہ سن رچنا ( تر بیت) نہیں دی ہے اسلام نے، یہ بہت مکمل مذہب ہے لیکن ہم ہو گئے دنیا دار،حاوی کر لی ہے دنیا،نہ بچوں کی فکر، وہ ٹی وی پر کیا دیکھ رہا ہے؟ وہ موبائیل پر کیادیکھ رہا ہے؟ کوئی لینا ایک نہ دینا دو، کیا کر رکھا ہے؟ یہ ساری خرابیاں سدھارنا ہوگی سب کو انڈیویجول (انفرادی)،محبت کرو ایک دوسروں سے، اس کے لئے پیسہ دینا ہی ضروری نہیں ہوتا ساتھ میں کھڑے ہوجائو یار اس سے بڑی ہمت طاقت نہیں ہے، آدمی تو خود لڑ لیتا اپنی جنگ، لیکن اس تانے بانے کو سدھارو،بہت ضروری ہے ،اپنے محلہ میںایک دوسرے کی خیر خواہی لو،کس حال میں ہے میرابھائی،مدد کرو،کسی کو کام پر لگائو، کسی کا کام جمائو، کسی کی بیٹی کوکچھ کرو، یہ سب کرنا پڑیگا، یہ این آر سی، سی اے اے سب آتے جاتے رہیںگے،ہمیںکیا موت سے ڈراتے ہو یار ہماری تو زندگی شروع ہی مرنے کے بعد ہوتی ہے، ہمیں کیا لینا دینا ،یہ زندگی ہے کیا؟ یہ دنیا سرائے ہے، آئے، ٹہرے، گئے۔پچاس ساٹھ سال کی تو بچی ہے،بوڑھے نہیں دکھ رہے آج کل،بستیوں میں جو ٹہرتے ، بچوںکوکھیلنے نہیںدیتے تھے چین سے،اب کہاں دکھتے، بڑی مشکل سے یہ ایک دکھے بابا، آج کل بزرگ نہیں دکھ رہے، بابا پچاس ساٹھ سال میں آدمی کی فائیل نپٹ رہی ہے،اتنی چھوٹی زندگی یار، نوح علیہ السلام کے زمانے میں ایک بوڑھی عورت رو رہی تھی تو نوح علیہ السلام نے پوچھا کیا ہوا، کہنے لگی میرا بیٹا مر گیا بولے عمرکیا تھی بولی ساڑھے چار سوسال، تو نوح علیہ السلام نے کہا ایک وقت ایسا آئے گا جب پچاس ساٹھ سال اسّی سال عمر رہیگی تو اس عورت نے کہا وہ لوگ تو پیڑ پر ہی زندگی گزار دیں گے۔توواقعی یہ سب پانی کے بلبلہ جیسی زندگی ہے یار ، ہم بڑے اس سے کہتے ہیں دعا میں یاد رکھنا، میرے لئے دعا کرنا۔کیوں کریں ؟ یہی کام بچا ہے؟ابے کام ایسے کر کہ دعا دل سے نکلے،یہ کرنا پڑے گا، بند کرو یہ ڈائیلاگ بازی، ہاں صاحب بس دعاوئں میں یاد رکھو، کیوںرکھوں؟میرے پاس دوسرے کام نہیں ہے کیا؟ارے کام ایسے کرو کہ دل سے دعا نکلے۔‘‘ امت مسلمہ کے مصائب اورپریشانوںکے مقابلہ میںاُس کی کمزوریوں،کوتاہیوں، بد اعمالیوں اور بے عملی کی فہرست بہت طویل ہے جن میں سے چند کا ذکر ا س دردمند انسان نے اوپر کیا ہے۔ اس خطاب کا ایک ایک لفظ بہت واضح اور دعوت فکر دینے والا ہے، بس ضرورت ا س بات کی ہے کہ مقرر کی تڑپ اور جذبہ کوسمجھا جائے اور ہر شخص اپنی کوتاہیوں کا خود محاسبہ کرکے اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔(یو این این)