تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی
email:[email protected] Siwani ki Mehfil/Facebook
جب عرس خواجہ معین الدین چشتی کے لئے زائرین کے قافلے اجمیر کی طرف بڑھ رہے تھے تب دلی میں دنگے ہورہے تھے اور انسان، انسان کا خون بہا رہا تھا۔دلی جو صوفیہ کا مسکن ہے اور خاص طور پر چشتی سلسلے کے بزرگوں کی قبریں اس شہر میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس شہر سے صوفیہ کا پیام امن دنیا بھر میں پھیلا تھا اور آج یہی شہر بدامنی کا شکار ہے۔یہاں خواجہ معین الدین چشتی کی بھی آمد ہوئی تھی اور ان کے سلسلے سے تعلق رکھنے والے محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء نے تو اسی شہر کو اپنا مسکم بنایا تھا اور آج بھی یہیں ابدی نیند سورہے ہیں۔ حالانکہ اس شہر کے لوگوں کے ایک بڑے طبقے نے ثابت کیا کہ وہ امن پسند ہیں۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی جانیں بچانے کی کوششیں بھی کیں۔ اصل میں سماج بنتا ہے انسانوں سے۔ یہ انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر کسی کی جسمانی اور ذہنی بناوٹ ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ کوئی گورا تو کوئی کالا ہوتا ہے۔ کوئی لمبا تو کوئی پستہ قد ہوتا ہے۔ کوئی زود رنج تو کوئی نرم خو ہوتا ہے۔ کسی کے مزاج میں تشدد ہوتا ہے تو کوئی امن پسند ہوتا ہے۔ کوئی محفل کو پسند کرتا ہے تو کوئی تنہائی کا خواہاں ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں کی ضرورتیں بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیںاور سب کی خواہشات کا رخ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی آدھی روٹی میں خوش تو کسی کو پورا ملک مل جائے تب بھی زیادہ کی چاہت۔ کسی کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا اور کسی کے پاس غذا کا انبار۔ اسی تنوع اور رنگا رنگی کو معاشرہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اسے درست رکھنا ان سبھی لوگوں کی ذمہ داری جو اس کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی بھی سبھی انسانوں پر لازم ہے اور تصوف کی تعلیمات اس قدر انسانیت دوست ہیں کہ وہ سماج کو بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کے بندھن میں باندھنے کا بڑا کام کرتی ہیں۔ تصوف کی نظر میں انسان تو بس انسان ہے اور سارے انسان، ایک خالق کی مخلوق ہیں لہٰذا اس نسبت سے سب کی خیر خواہی کی ذمہ داری سب پر ہے۔ اگر ایک شخص دوسرے کی بھلائی کے لئے کام نہ کرے تو بھی دوسرے اس کی بھلائی کا خیال رکھیں ،یہی تصوف کا سبق ہے اور صوفیہ نے اپنے کردار سے اسی کا درس دیا۔ آدمیت جذبۂ ایثار ہونا چاہئےآدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے اچھوں کے ساتھ اچھا برتائو تو سب کرتے ہیں لیکن جو آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے، اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا غیر معمولی بات ہے اور تصوف میں اسی کا درس دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں مثال کے طور پر ایک مشہور صوفی حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ کا واقعہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایک بار ایک مکان کرایے پر لیا۔پاس ہی ایک یہودی کا مکان تھا جو اپنے گھر کی گندگی، پرنالے سے بہا دیا کرتا تھا اور وہ گندگی آپ کے گھر میں چلی آتی تھی۔ اُس نے ایک مدت تک ایسا کیا مگر آپ نے کوئی شکایت نہیں کی ۔البتہ آپ خود ہی اسکی صفائی کردیا کرتے تھے۔ ایک دن اس نے پوچھا کہ میں جو نالے سے گندگی بہادیتا ہوں اس سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی ؟ آپ نے فرمایا تکلیف تو ہوتی ہے مگر میں نے اسکی صفائی کے لئے ایک جھاڑو اور ایک ٹوکری رکھ چھوڑی ہے ۔ اُسی سے صفائی کر دیتا ہوں۔ظاہر ہے اِس جواب کے بعد اس کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہ ہوگا۔ (سچی حکایات،پنجم، بحوالہ تذکرۃ الاولیائ)برائی کا بدلہ بھلائی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے حاضر باشوں میں ہر طبقے کے لوگ ہوتے تھے ۔ شاہزادوں اور درباریوں سے لے کر عام غریب لوگ بھی موجود رہتے تھے۔ بعض حاسد قسم کے لوگ بھی آپ کی محفل میں آتے تو بعض جان چھڑکنے والے عقیدت مند بھی ہوتے تھے۔ آپ کے ملفوظات کے جامع امیر حسن سنجری ایک مجلس کا ذکر کرتے ہیں: ’’حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا کہ بعض آدمیوں نے جناب کو ہر موقع پر برا کہا وہ آپکی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے سننے کی ہم تاب نہیں لا سکتے ۔خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب کو معاف کیا تم بھی معاف کردواور کسی سے دشمنی نہ کرو ۔ بعد ازاں فرمایا کہ چھجو ،ساکن اندیپ ہمیشہ مجھے برا بھلا کہاکرتا اور میری برائی کے درپے رہتا۔ برا کہنا سہل ہے لیکن برا چاہنا اس سے برا ہے۔ الغرض جب وہ مرگیا تومیں تیسرے روز اسکی قبر پر گیا اور دعاء کی کہ پروردگار!جس نے میرے حق میں برا بھلا کہا ،میں اس سے درگزرا، تو میری وجہ سے اسے عذاب نہ کرنا۔ا س بارے میں فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے مابین رنجش ہو تو دور کردینی چاہیے۔اگر ایک شخص دور کر دیگا تو دوسرے کی طرف سے کم تکلیف ہوگی۔ ،،(جلد 3،مجلس ۔5) آدمی کی شخصیت اچھائیوں اوربرائیوں سے بنی ہے ،وہ کئی بار غیراخلاقی (IMMORAL)کام بھی کرتا ہے مگر اس کی برائی کا جواب اچھائی سے دینے والے کم ہی ملتے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر ایک شخص کانٹے بوتا ہے اور اس کے جواب میں دوسرا بھی کانٹے بوئے تو پھر ایک سلسلہ چل پڑے گا اور یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائیگی اور کانٹوں کی وجہ سے یہاں گزر بسر ناممکن ہوجائیگا مگر کانٹوں کے جواب میں اگر پھول بوئے جانے لگیں تو کتنا اچھا ہو۔ یہ دنیا گلزار بن جائے اور جنت کا نمونہ لگنے لگے۔تصوف کی تعلیمات میں یہی خوبی ہے کہ یہ انسان کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتی رہتی ہیں کہ وہ ایک انسان ہے اور اللہ کا بندہ ہے، جسے چند روزہ زندگی کے بعد اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔ جو زندگی عنقریب ختم ہونے والی ہے اس میں نفرت اور بد اخلاقی کی کھیتی کیا کرنا۔ محبت سماج کو جوڑنے والی چیز ہے۔ دشمن کو بھی دوست بنانے والی چیز ہے۔ اسی لئے تصوف میں سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے محبت پر۔ بھائی چارے پر۔ ایک دوسرے کی غمخواری پر۔ اپنے عہد کے معروف صوفی حضرت ابو حمزہ بغدادی کا قول ہے: ’’جب تمہارا جسم تم سے سلامتی پائے تو جان لو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور جب لوگ تم سے محفوظ رہیں تو جان لو کہ تم نے ان کا حق ادا کردیا۔،، (کشف المحجوب،صفحہ 230) یعنی خود کو سلامت رکھنا، اپنے جسم کا حق ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کی بھی بھلائی چاہے۔یہ دوسرں کا حق ہے کہ وہ ہماری اذیت اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔ سماج کی خیر خواہی اور خدا کے بندوں کی بھلائی ، یہ وہ انسانی صفات ہیں جن پر تصوف میں خاص دھیان دیا جاتاہے اور انھیں عبادت تصور کیا جاتا ہے۔یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماںکہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساںخدمت ِ خلق سے محبت پھیلتی ہے خدمت ِ خلق یعنی انسان کی خدمت اور لوگوں کی سیوا صوفیوں کا طریقہ رہا ہے ۔وہ اپنی خانقاہوں سے کئی کام خدمت کے جذبے سے کرتے تھے۔ خانقاہوں نے سماج سیوا کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں ، جو بادشاہوں اورامیروں کے لئے بھی ناممکن تھیں ۔ ایسی خانقاہیں ان سبھی ممالک میں پھیلی تھیں ،جہاں صوفیہ تھے ،انکے نظریات وخیالات تھے اور تصوف کے سلاسل موجود تھے ۔دلّی کی سب سے مشہور خانقاہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ تھی جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔اس خانقاہ کی طرف سے روزانہ ہزاروں افراد کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا۔جو غریب ونادار نہیں آسکتے تھے،ان کے گھرکھانا بھیج دیا جاتا تھا۔کئی غریب خاندانوں کے لئے وظیفے مقرر تھے جو پابندی کے ساتھ ہر مہینے انھیں بھیج دیئے جاتے تھے ۔علمائ،حفاظ اور فقراء ومساکین کی مدد کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا رہتا ۔علم حاصل کرنے والے طلباء کے اخراجات خانقاہ سے ہی پورے کئے جاتے تھے۔جو غریب خاندان دلی سے دور جنوبی ہند میں تھے انکی مدد کے لئے بھی یہاں سے پیسے بھیج دیئے جاتے تھے۔شادی بیاہ کے موقعوں پر لوگ خانقاہ کی طرف مدد کے لئے دیکھتے تھے۔ اس خانقاہ کی یہ حالت تھی کہ ہر جمعہ کو جھاڑو پھیردیا جاتا تھا اور کوئی بھی چیز باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی جو کچھ بھی بچا کھچا ہوتا اسے خیرات کردیا جاتا تھا۔ یہ روایت صرف اسی خانقاہ کی نہیں تھی دیگرخانقاہوں میں بھی اسی قسم کی سماجی خدمات کا سلسلہ جاری تھا ۔اس کے پیچھے صوفیہ کی خاص سوچ تھی، جسکی جھلک خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان میں ملتی ہے : ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے ، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداء میں ہوگا ۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اسکی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے ،اور جنت میں اس کے لئے ایک محل مخصوص کرتا ہے ۔ ،، (انیس الارواح،مجلس۔10) ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے : ’’میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سنا کہ اللہ تعالیٰ تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے ،پہلے وہ باہمت لوگ جو محنت کرکے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں ۔تیسرے وہ جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔،، (انیس الارواح،مجلس۔20)اسی طرح حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : ’’کھانا کھلانا سبھی مذاہب میں پسندیدہ ہے ۔،، (فوائدالفواد،جلد۔1 ،مجلس۔17) اس قسم کے اقوال صوفیہ کے ملفوظات اور انکی کتابوں میں بہت زیادہ ملتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خدمت خلق کو کتنا پسند کرتے ہیں ۔وہ اس خدمت کو نہ صرف خدا تک پہونچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے انسانوں میں محبت اور بھائی چارہ کی اشاعت کا ذریعہ بھی تصور کرتے تھے ۔(یو این این)