ہندوستان میں جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے اس رفتار سے طبی سہولتوں کو فروغ نہیں دیا جاسکا، نتیجہ بڑھتے مریضوں کیلئے کم دواخانے، کم طبی عملہ دستیاب ہے ۔ ملک میں ہر سرکاری ہاسپٹل ۶۱ ہزار مریضوں سے نمٹ رہا ہے ہر ایک ہزار ۸۳۳مریضوں کیلئے محض ایک بستر دستیاب ہے ۔ نئے اعداد و شمار سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے ، غیرمنقسم آندھراپردیش میں زائد از ۳ لاکھ مریضوں کیلئے صرف ایک سرکاری دواخانہ موجود تھا ۔ بہار میں ۸ہزار ۸ سو مریضوں کیلئے صرف ایک بستر دستیاب ہے ۔ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا نے سال ۲۰۱۵ء کیلئے جو قومی صحت رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق زائداز ہر ۱۱؍ ہزار مریضوں کیلئے صرف ایک ایلوپتھی ڈاکٹر دستیاب ہے ۔ بہار اور مہاراشٹرا میں تو طبی عملہ کی دستیابی کا سنگین بحران درپیش ہے سال ۲۰۱۴ میں درج رجسٹر کوالیفائیڈ ایلوپتھی ڈاکٹروں کی تعداد گزشتہ سال کی تعداد کے اعتبار سے ۱۶ ہزار کم ہو گئی ہے۔ اس طرح اہل ڈاکٹروں کی تعداد گزشتہ سال کی تعداد سے نصف رہ گئی ہے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایلوپتھی ڈاکٹروں کی جملہ تعداد۹ لاکھ چالیس ہزار ہے۔ ڈنیٹل سرجن ایک لاکھ ۵۴ ہزار اور دیسی طب کے ڈاکٹروں کی تعداد سات لاکھ ۳۷ہزار بتائی گئی ہے جبکہ آیورویدک ڈاکٹروں کی تعداد۳ لاکھ پچاس ہزار ہے ۔ ہندوستان میں چار سو میڈیکل کالج ہیں جہاں سالانہ ۴۷ ہزار طلبا و طالبات کو داخلے دیئے جاتے ہیں ۔ حفظان صحت شعبہ پر مرکز کے اخراجات گزشتہ ۲برسوں کے دوران کم ہوئے ہیں حالانکہ بڑھتی آبادی بڑھتے امراض اور بڑھتی ضرورت کے لحاظ سے زائد مرکزی فنڈس مخصوص اور خرچ کرنے کی ضرورت تھی۔ آج صحت کے شعبہ میں ہندوستان کے اخراجات دنیا کے غریب ترین ممالک کے اخراجات سے بھی کم ہیں ۔ ملک کی ریاستوں میں سال ۱۳-۲۰۱۲ میں سب سے زیادہ سرکاری خرچ غیرمنقسم آندھراپردیش میں ہوا ، گوا اور شمال مشرقی ریاستوں میں فی کس آمدنی زیادہ تر صحت کے شعبہ پر خرچ کی گئی جبکہ صحت کے شعبہ پر سب سے کم خرچ بہار اور جھارکھنڈ میں ہوا ہے۔ ملک میں خانگی طور پر صحت پر اخراجات میں حالیہ برسوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ دوائیں مہنگی ہوگئیں،پرائیوٹ دواخانوں میں علاج کافی مہنگا ہوگیا ۔ کارپوریٹ دواخانوں میں غریب تو غریب اوسط خاندان کے مریض بھی علاج کرانے کی ہمت نہیں کرسکتے ۔ ڈاکٹروں کی فیس کی ادائیگی بھی اوسط آمدنی والوں کے بس کی بات نہیں ہے ملک میں گھریلو اخراجات میں سرفہرست بیماروں کے علاج معالجہ پر ہورہا خرچ ہے اور بیماریوں کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقات کی آمدنی و خرچ میں فرق پیدا ہورہا ہے جس کی وجہ سے اکثر گھرانے مقروض اور مجبور ہوگئے ہیں ۔ مکمل طور پر خواندہ ریاست کیرالا میں عوام بیماری کی صورت میں سرکاری دواخانوں کا رخ نہیں کرتے سب کا علاج پرائیویٹ دواخانوں میں ہوتا ہے ہندوستان میں امراضِ متعدی سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ہوئی ہے زائداز دس لاکھ کیسوں کے باوجود ملیریا سے اب سالانہ صرف پانچ سو اموت ہورہی ہیں سال ۲۰۱۰ کے بعد سے چکن گنیا کے کیسیس بھی کم ہوئے ہیں ۔ ۲۰۱۴ میں ملک میں ڈینگو سے ۱۳۱ اموات ہوئی تھیں۔اس وقت بھی ملک کے کئی حصوں میں ڈینگو کی وبا پھیلی ہوئی ہے ۔عارف عزیز(بھوپال)