ولیوں اور صوفیوں کی سرزمین پر جرائم کی رفتار میں تشویشناک اضافہ

0
0

رشوت خوری ، منشیات اور اخلاق سوز رحرکتوں سے سماجی برائیوںکی جڑیں گہری ہوئی ہیں
سرینگر؍؍ ولیوں اور صوفیوں کی سرزمین پر جرائم کی رفتار میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے حساس اور شریفوں کا یہاں زندہ رہنا مشکل بن گیا ہے ۔ رشوت خوری ، منشیات اور اخلاق سوز رحرکتوں سے سماجی برائیوں کی جڑیں کافی گہری ہوگئی ہیں جو ابدہی کا جنازہ نکل گیا ہے۔سی این ایس کے مطابق وادی میں مختلف قسم کے پھیلتے جرائم میں کمی کے بجائے آئے روز ان میں اضافہ ہورہا ہے اور اب ان جرائم کا شکار زیادہ تر نوجوان لڑکے لڑکیاں ہورہے ہیں۔ سماج میں پھیلتے جرائم کی اصل وجہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اخلاقی پستیوں کا شکار ہونا ہے کیونکہ اخلاقی گراوٹ آنے کی وجہ سے جرائم کی رفتا بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ اس دوران عوامی حلقے اس بات پر زبردست حیرانی کا اظہار کررہے ہیں تعلیمی ادروں میں بچوں کو اپنی زندگی و کردار سنوارنے کے لئے والدین اساتذہ پر زمہ داری رکھتے ہیں لیکن اب یہاں کے حالات اتنے بدل گئے ہیںکہ سکولوں میں تعینات یہ اساتذہ اپنے مقدس پیشے کے ساتھ انصاف پر کھرا نہیں اتر سکتے ہیںکیونکہ تعلیمی اداروں میں ہی صحیح تربیت پانے کے بعد یہ لہو منوا سکے ہیں اور اس غیر یقینی صورتحال سے بھی نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ایک غلط تاثر پڑجاتا ہے اور اس طرح سے جرائم بڑھنے کی ایک وجہ بن جاتی ہے۔ ادھر اب شہر سرینگر اور وادی کے اکثر علاقوں سے آئے روز شکایتیں مل رہی ہیں کہ کئی نوجوانوں کو منشیات، چوری یا اغوا کاری یا دوسرے جرائم کرنے کی پاداش میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ سماجی بدعات نے اس قدر بھیانک رُخ اختیار کیا ہوا ہے کہ ان سے نجات دلانے والا کوئی نہیں ہے ۔ شراب ، چرس ، نقلی کرنسی کا دھندا چلانے والے اسمگلروںکو عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور عدالتی طوالت کی وجہ سے نقب زنوں اور اسمگلروں کے حوصلے دن بہ دن بلند ہوتے جارہے ہیں۔ شہر سرینگر کے کئی سرکردہ افراد نے سی این ایس کو بتایا کہ جہاں پولیس ایسی کاروائیوں پر قدغن لگانے کے لئے صحیح قدم نہیں اٹھا رہی ہے وہی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ بے راہ روی اور بد چلنی کے مرتکب افراد کی آوارہ گردی کی روک تھام کے لئے موثر کاروائی ہونی چاہئے اور ایسی کاروائیوں کو وسیع کرنا چاہئے جس سے بڑی حد تک ایسی اخلاق سوز حرکتوں کی سرکوبی ہوسکتی۔ ان لوگوں کے مطابق پولیس کے علاوہ علمائوں، دانشوروں اور والدین کو اس بارے میں اب خاموشی کے بجائے آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ کشمیری نوجوان لڑکے لڑکیاں اس طرح جرائم اور اخلاق سوز حرکتوں کے شکار ہورہے ہیں کہ اگر ان پر فوری طور روک نہ لگائی گئی تو پھر ایک ایسا سیلاب آئے گا جو پوری کشمیری قوم کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ کم سن طلبہ بھی اب اس طرح اخلاقی پستی کے شکار ہورہی ہے اور اپنی والدین کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے والدین بھی ان کی روک تھام نہیں کرپارہے ہیں۔ سنجیدہ فکر طبقے کے مطابق تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ ٹیوشن سنٹروں میں درس و تدریس کے کام پر مامور استادوں کو اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور طلبہ و طالبات کو اخلاقی تعلیم دینی چاہئے۔ ادھر لوگوں کے مطابق بے راہ روی اس طرح پھیلتی جارہی ہے اور یہی مختلف قسم کے جرائم کی بنیادبن رہی ہے اس لئے تمام تر احتیاط اور بروقت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے ہر زمہ دار افراد کو اپنی زمہ داریوں کو نبھانا چاہئے۔عوامی حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ موبائل کی آمد سے بھی سماج میں اخلاقی گراوٹوں میں کافی اضافہ ہوا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دن رات موبائل کا استعمال کر کے اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں جبکہ والدین کا ان پر کوئی بس نہیں ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا