سپر پاور امریکا کے ۲۰ فیصد بچے غذا سے محروم

0
0

امریکا خود کو دنیا کی سب سے بڑی یعنی سپر پاور قرار دیتا ہے اور امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اقتدار کا اتنا نشہ چڑھا ہے کہ وہ اب خود کو پوری دنیا کا پالن ہار تصور کرنے لگے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس ملک کو امریکی امداد بند کرنے کی دھمکی دی جائے گی وہ اس کے سامنے اوندھے منہ گر جائے گا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوگا جو ہم چاہیں گے لیکن دولت کی ریل پیل کا دعوی کرنے والے اس ملک امریکا کا یہ عالم ہے کہ اس کے کم و بیش ۲۵ فیصد بچوں کو مناسب خوراک میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی پرورش درست طریقے سے نہیں ہوپاتی، بچوں کے لئے اقوام متحدہ کے فنڈ اقتصادی اور سماجی پالیسی کے شعبے کے سربراہ ہوزے کویسٹا کا کہنا ہے کہ تمام ۴۱ امیر ملکوں کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں بچوں کی فلاح و بہبود کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے لئے ادارے یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ میں تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں میں بھوک صرف غریب ملکوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ دنیا کے ۴۱ امیر ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امیر ملکوں میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ یعنی ۲۰ فیصد بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ ہر آٹھویں بچے کو پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں ملا رہا ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ زیادہ مالی وسائل اور آمدنی کے بچوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں بلکہ اکثر ہوتا یہ ہے کہ اس سے امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ جاتا ہے۔ بچوں کی بہتری کے لئے یونیسیف کے مقرر کردہ معیاروں کے مطابق ۴۱ ملکوں کی فہرست میں سے دنیا کے پہلے سات ملکوں میں ناروے، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، آئی لینڈ، جرمنی اور سوٹزرلینڈ شامل ہیں جب کہ اس فہرست کے آخری سات ملک چلی، میکسیکو، امریکا، بلغاریہ، رومانیہ، اسرائیل اور ترکی ہیں۔ ہوزے نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ اس فہرست میں امریکا کا نمبر ۳۷ واں ہے۔ وہ غربت، بھوک، اچھی صحت، اچھی پرورش اور اچھی تعلیم کے لئے زیادہ کچھ نہیں کر رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف دولت اور اقتصادی ترقی ہی بچوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ رپورٹ میں امیر ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بچوں کی ضروریات کو اپنی پالیسی کے ایجنڈے میں ترجیح دیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے دنیا میں خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ۸۱ کروڑ ۵۰ لاکھ افراد کو مناسب غذا میسر نہیں تھی اور یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں ۳۸ فیصد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار ایک سنگین صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ ایک دہائی تک غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی شرح کم سطح پر رہنے کے بعد ایک بار پھر اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ غذائیت کی کمی دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی صحت اور مستقبل کے لئے خطرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پندرہ کروڑ پچاس لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی جسمانی و ذہنی نشو نما پر غذائیت کی کمی کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے باعث وہ باقی کی زندگی میں بھی ان اثرات سے دوچار رہیں گے۔عارف عزیز(بھوپال)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا