لڑکیوں کی کم ہوتی تعداد پر معاشرہ کی بیداری ضروری

0
0

مرد عورتوں کے بگڑتے تناسب کے پیچھے ماں کے پیٹ میں پل رہی بچی کو قتل کرنا اہم سبب ہے۔ اس بگڑتے تناسب کو روکنے کے لئے مالی امداد دینے سے زیادہ ضروری سماج کو بیدار کرنا اور سوچ میں تبدیلی لانا ہے۔ کوکھ میں پل رہی بچی کی پہچان کرانے والے بہت پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ معاشرے میں بیداری لائیں لیکن افسوس ایسے لوگ خود اخلاقی زوال کا شکار ہوکر لڑکیوں کے قتل کے راستے کھولتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کے لئے حکومت ہی سخت قدم اٹھائے بلکہ ہمیں بچیوں کو کوکھ میں قتل کرنے والوں کے ساتھ اپنے رشتے ختم کرنے ہوں گے۔ ایسے ڈاکٹروں سے دوری بنانی ہوگی جو اس طرح کے کام کرتے ہیں۔یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدر نے راج پتھ پر ہندوستان کے ومین پاور کو دیکھا تو متاثر ہوئے اور سیری فورٹ آڈیٹویم کے اپنے خطاب میں انہوں نے اس کا تذکرہ بھی کیا۔ اُن کے ہندوستان آنے سے کچھ دنوں پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’بیٹی بچاؤ۔۔ بیٹی پڑھا‘‘ مہم کی شروعات کی تھی۔ یہ مہم ملک کے ان سو اضلاع میں چلائی جانی ہے جہاں لڑکیوں کا اوسط تناسب لڑکوں کے مقابلے بہت کم ہے۔ اس میں ہریانہ کے بارہ اضلاع شامل ہیں۔ ہریانہ لڑکیوں کے اوسط تناسب کے معاملے میں بہت پسماندہ ہے۔ اس لحاظ سے وہاں سے اس کی ابتدا اہم ہے۔اس مہم کو لیکر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت جب تک سخت قانون نافذ نہیں کرتی تب تک بچیوں کے پیٹ میں مارے جانے کے جرم کو روکنا مشکل ہے۔ اس قتل میں ماں باپ خود شامل ہوتے ہیں۔ قدرت نے جو دنیا کی سب سے محفوظ جگہ بنائی ہے ماں کی کوکھ اُس میں شامل ہے، وہیں اگر بیٹی کا دم گھونٹ دیا جائے تو باقی جگہ اُس کی حفاظت کو لیکر کیا کہا جاسکتا ہے؟ اس کے لئے حکومت کو ان ڈاکٹروں اور میڈیکل اداروں کے خلاف ایسی سخت کارروائی کو یقینی بنانا ہوگا جو سونو گرافی کے ذریعہ کوکھ میں لڑکا یا لڑکی کی ناجائز طریقے سے شناخت کرکے اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ پہچان کرانے والے بہت پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ معاشرے میں بیداری لائیں، مگر ایسے لوگ کچھ زیادہ اخلاقی پستی کا شکار ہوکر پیٹ میں پل رہے بچیوں کے قتل کے راستے کھولتے ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کس طرح کے خونی معاشرے میں رہنے کو مجبور ہیں۔ ملک کے پندرہ اضلاع ایسے ہیں جہاں مرد اور عورتوں کا اوسط تناسب سب سے خراب ہے، ان میں اکیلے ہریانہ کے نو اضلاع ہیں۔ ہریانہ کے علاوہ پنجاب کے گیارہ اضلاع کو اس مہم کے دائرے میں لایا جارہا ہے۔ ان دونوں صوبوں میں لڑکیوں کا اوسط تناسب کافی کم ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ دنوں ہریانہ میں لڑکیوں کے گھٹتے اوسط پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس نے ہریانہ حکومت سے کہا کہ پیٹ میں بیٹیوں کے قتل سے متعلق تمام ایک سودو مقدمات پرچار ماہ کے اندر کارروائی پوری ہوجانی چاہئے۔ ہریانہ حکومت کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں تمام اکیس اضلاع میں لڑکیوں کے اوسط میں سال بہ سال کمی درج ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسے پوری تہذیب و تمدن کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق ہریانہ میں عورتوں کی تعداد ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں آٹھ سو تہتر عورتوں کے ملکی اوسط سے بہت کم ہے۔ ہریانہ میں نارنول کے ارد گرد کے ساٹھ گاؤں میں گزشتہ ایک سال میں ایک بھی لڑکی پیدا نہیں ہوئی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے بھی وہی قاتل ذہنیت کام کر رہی ہے جو بیٹیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کی نیند سلادیتی ہے۔ لہٰذا لڑکیوں کی آبادی بڑھانے کے لئے مالی مدد دینے سے زیادہ ضروری سماج کی سوچ میں تبدیلی لانا ہے۔ جب یہ سماج کسی نہ کسی طرح محنت مزدوری کرکے، بغیر سرکاری مدد کے لڑکوں کو پال لیتا ہے تو لڑکیوں کے معاملے میں اسے کیوں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ تنگ ذہنیت ہے جو لڑکیوں کو نہ صرف بوجھ سمجھتی ہے بلکہ بوجھ بناتی بھی جارہی ہے۔ اگر لڑکیوں کے خلاف جرم ہوتے ہیں تو اس کے لئے وہ خود ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر انہیں کوئی اپنی ہوس کا شکار بنادیتا ہے تو وہ بھی اس معاشرے کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں لڑکیوں کو تحفظ کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کے لئے سماج کے لوگ ہی ذمہ دار ہیں۔تحریر:عارف عزیز(بھوپال)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا