سرحدی خطہ پیر پنچال میں بچہ مزدوری ایک سنگین مسئلہ

0
0

بچوں کا مستقبل چائے کی دُکانوں اور ہوٹل پر برباد ہو رہا ہے ،انتظامیہ اندھی ،گونگی اوربہری؟

اعجاز کوہلی

مینڈھر؍؍مینڈھر کہ بچوں کو ملک کے مستقبل اور نئے دور کے روشن چراغ سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ آج کا نوجوان اگر بہتر تعلیم اور اچھی تربیت سے آراستہ ہوگا تو وہ کل قوم کو ترقی کی منزلوں پر لے جا سکتا ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں بہترین کردار اداکر سکتا ہے ۔ہر والدین اپنے بچے کو بہتر مستقبل کیلئے اچھی تعلیم اور تربیت سے آراستہ کرتا ہے اور اس کیلئے تمام طرح کے اقدامات اٹھاتا ہے لیکن خطہ پیر پنچال میں ان دنوں قوم اور ملک کا یہ مستقبل چائے کی دوکانوں اور کھانے کے ہوٹل پر کام کر رہا ہے جہاں چائے کے کپ دھونے اور کھانے کے برتن صاف کرنے میں یہ روشن چراغ گل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے مینڈھر سماجی کارکن محمد خرشید کا کہنا ہے کہ خطہ میں نظر دوڑائی جائے تو خاص طور سے بچوں کو مزدوری کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور معصوموں سے انکی عمر سے بھی زیادہ کام لیا جا رہا ہے جبکہ اس ضمن میں ریاستی حکومت اور انتظامیہ بالکل انجان ہے اسکے علاوہ بچہ مزدور ی کے خلاف کام کرنے والی تنظیمیں بھی خاموش ہیں جہاں اچھی حثیت کے مالک افراد اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے اداروں میں تعلیم دلا رہے ہیں۔ وہاں سماج میں کئی ایسے بچے بھی موجود ہیں جہنیں سرپرست کی کمی اور غربت کے باعث نہ ہی تعلیم نصیب ہو رہی ہے اور نہ بہتر نگہداشت جسکے نتیجہ میں وہ اپنوں کی خاطر ان ہاتھوں کو مزدوری کیلئے استعمال کر رہے ہیں جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہئے سرحدی خطہ پیر پنچال میں ایسے بچوں کی کافی تعداد موجود ہے جن سے بچہ مزدوری لی جا رہی ہے اور ان میں سے زیادہ تر بچے چائے کی دوکانوں اور کھانے کے ہوٹل میں مزدوری کر رہے ہیں اسکے علاوہ گھریلو کام کاج کیلئے بھی کافی بچے بڑے گھروں کی مزدوری پر معمور ہیں مزدوری کرنے والے ان بچوں میں زیادہ تر کی عمر 11 سال سے لیکر 13 سال ہے ایسے بچوں کی بھی تعداد بہت زیادہ ہے جو مشکلات میں کام کر رہے ہیں جن سے اضافی کام لیا جاتا ہے سب سے بڑی حیرانی کی بات تو یہ ہے سرکاری طور پر چل رہے تعمیراتی کاموں میں بھی یہ بچے مزدوری کر رہے یہ خطہ میں کئی ایسے ادارے اور کارخانہ ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں سے کام لیا جا رہا ہے اگرچہ اس غیر قانونی کام پر قدغن لگانے کیلئے محکمہ کا قیام کیا گیا ہے اور مختلف تنظیمیں بھی بچہ مزدوری کے خلاف کام کر رہی ہیں تاہم عوامی سطح پر ان کاموں کو متاثرکن قرار دیا جا رہا ہے عوام کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ ہی بچہ مزدوری کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میں ایک مثبت اور ٹھوس لائیعمل تیار کریں تاکہ بچہ مزدوری پر روک لگائی جا سکے اور چائے کی دوکانوں و کھانہ کے ہوٹل پر خراب ہو رہے قوم اور ملک کے اس مستقبل کو بچاکر اسے تعلیمی اداروں کی زینت بنائی جائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا