مبصر:سعیداختراعظمی
’آپ بیتی ‘ہویا’جگ بیتی‘اگر’جوسنتاہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے‘کااظہاریہ ہے تو اپنے مقصدمیں کامیاب ہے۔یہ بیانیہ شوق مطالعہ اوربرتنے کے ہنرسے نموپاتاہے اورپروان چڑھتاہے۔مستقل ریاضت فنی پختگی کے لیے لازمی ہے تواہل علم کی صحبت اسے عروج سے ہم کنارکرتی ہے۔تنویراحمدتماپوری کامطالعہ ومشاہدہ قوی ہے ۔وہ سماج میں رونماہونے والے واقعات کی لفظی تصویرکشی اتنی خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ قاری عش عش کراُٹھتاہے۔ان کے یہاں تشبیہات واستعارات کی وسیع و عریض کائنات آبادہے جس کے سحرسے نکلناسہل نہیں ۔ایسالگتاہے کہ وہ خوداس کاحصہ ہیں اورقاری کے شانہ بہ شانہ کرداروں کی انگلی تھامے چل رہے ہیں۔ ’زمین سے بچھڑے لوگ‘تنویراحمدتماپوری کااولین فکشن زاویہ قائمہ ہے ۔ایک درجن سے زائدافسانوں کی یہ کہکشاں متنوع موضوعات کواپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔’سوالیہ نشان‘تہذیب افرنگ کی اندھی تقلید اورسوشل میڈیاکے غلط اثرات کوسامنے لاتاہے جہاںبیٹی کی راہ روی سے خائف ماں ام الخبائث کوگلے لگاکراس سے بھی دوقدم آگے نکل جاتی ہے۔یہی ہمارے مغرب زدہ معاشرے کی کریہہ تصویرہے جس سے چشم پوشی کرنا شترمرغ کے قبیلے میں اپنانام شامل کرناہے۔’لٹکتی تلوار‘فلم انڈسٹری کی اس کھلی حقیقت کوبے نقاب کرتی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔یہاں بے غیرتی عام ہے جس پرکسی کوبھی عارنہیں۔’کیمیا گر ‘میں سر زمین حجاز میں کام کرنے والے غیرملکی مزدوروں کے مسائل کااحاطہ کیاگیا ہے۔یہاں ریگستان کی چمک دمک پیٹروڈالر کی کیمسٹری نہیں غریبوںکے خون پسینے کی ہے۔’زمین سے بچھڑے لوگ‘جہان دیگرآبادکرنے اورگوگل کرشمہ سازی کے مضمرات سے آگاہی ہے۔’ریت کاپل ‘قول وعمل کاعدم توازن اورمذہب کی جھوٹی شان کالبادہ ہے جس کے اترتے ہی شخصیت کا کریہہ پہلوجلوہ گرہوتاہے ۔’رشتوں کی صلیب‘تعلقات کاگورکھ دھندہ ہے جومضحکہ خیز صورت حال سے دوچارکراتاہے۔شرعی حدودمیںجواز کے نام پرجوکھلواڑ کیا جارہاہے یہاں اس کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔’ہوم ورک‘الیکشن میںاپنی کرسی ثابت وسالم رکھنے والوں کی سیاسی چال اورتمام تر حربوں سے آشنائی ہے جس میںسے ایک حربہ فسادات کے بہانے تلاش کرکے خوںریزی کرنااورسیاست کی روٹیاںسینکناہے۔’گاندھی کا چوتھا بندر ‘ لوجہادبنام اقلیت کوختم کرنے کی سازش ہے جہاںدواکثریتی طبقہ کے غنڈے عیاشی کے لیے ملنے والی خطیررقم کی خاطر انسانیت کوتج دیتے ہیں۔’نگہبان‘شدیدبھوک کے بادجودجانورکے وحشی پن پہ انسان دوستی اوروفاداری کاغلبہ ہے جو یہ نصیحت دیتاہے کہ حیوان اپنی سرشت بدل سکتاہے توانسان حیوانی سرشت اپنانے میںکیونکرفخرمحسوس کرتاہے؟’وہ لمحے ‘اولادکے احساس پہ تازیانہ ہے جسے پردیس میںماںکی یادکم آتی ہے البتہ شادی کے بعدبیوی کی یادشد ت سے ضرورآتی ہے۔’اینٹی وائرس‘حکمت عملی سے بیوی کورام کرنے کانسخہ ہے جس سے گھرکی کشیدہ فضالمحوںمیںتبدیل ہوجاتی ہے۔’رئیس‘مہنگائی سے نبردآزماخاندان کاالمیہ ہے جسے تفریح کے لیے مہینوںاخراجات میںکٹوتی کرنی پڑتی ہے اوریہ عیاشی اس کے ملازم کانصیبہ بن جاتی ہے۔ ’ادھیکاری‘افسراعلی کااثرورسوخ ہے تو’اورپھریوںہوا‘خواب اورحقیقت کادلچسپ امتزاج۔یہاں قاری جسے حقیقت سمجھ رہاہے وہ خواب کے سواکچھ بھی نہیں۔ 33صفحات پرمشتمل پروفیسرعبدالرب استاد،میرق مرزا،ڈاکٹرسلیم خان،ڈاکٹربی محمددائود محسن اورنورالدین نورغوری کی آراء کی طوالت ،افسانہ کے طول طویل اقتباسا ت اورہرافسانہ کے آغاز میںایک تہائی صفحات کے خلاکو درکنارکردیںتوقاری کے لیے افسانہ کابیانیہ اورتشبیہ رنگ کائنات کی فسوںخیزی یقیناََ اپنے اندرکشش رکھتی ہے ۔بطورنمونہ یہ اقتباسات دیکھیے۔ ’آنکھ کٹورہ،چاندچہرہ،شفق عارض،یہ سب حسن کے اجزائے ترکیبی توہوسکتے ہیں،لیکن حسن مکمل اورلازوال تواس کی طرف اٹھنے والی توصیفی نظروںسے ہی بنتاہے۔(سوالیہ نشان: صفحہ45) رات کے اپنے رواج ہوتے ہیں۔کہیںہنگامہ دندناتارہتاہے توکہیںسناٹاسنسناتارہتاہے۔ہنگامے سے سناٹے کی طرف ان کاسفرجاری تھا۔(ایضاََ:صفحہ 48) ویسے بھی دل توبچہ ہوتاہے ،اس کی حرکتیںبھی بچکانہ ہی ہوتی ہیں،وہ ہرنئی چیز کے پیچھے بھاگتاہے۔نئی چیز خواہ وہ بندوق کی گولی ہی کیوںنہ ہو۔(لٹکتی تلوار:صفحہ53) شام کی آمدآمدتھی۔دُورشفق سے لگی ہوئی سمندری پٹی پرڈوبتے سورج کی سنہری مٹکی اپناساراسوناانڈیل رہی تھی۔ چاروںطرف پھیلے پانیوںکے بیچ سے زمین کاایک بڑاحصہ دھیرے دھیرے ایسے ابھررہاتھاجیسے کسی جادوگرکی سامری طاقت کاکوئی شعبدہ چل رہاہو۔(کیمیاگر:صفحہ62) بڑی بڑی کشادہ سڑکوںکاجال تارعنکبوت کی طرح ہرطرف پھیلاہواتھا۔وہ صاف ستھری اتنی تھیںکہ ان پرمکھن ڈال کرگھی نکال لیاجائے۔(ایضاََ:صفحہ67) جنگ دراصل چندسیاست دانوںکی کھیتی اورتاجرگھرانوںکی منڈی ہوتی ہے۔پہلے یہ لوگ ہتھیاربیچتے ہیں۔ پھراس کی تلافی کے لیے پھاہے کاکاروباربھی کرتے ہیں۔(زمین سے بچھڑے لوگ:صفحہ71) بم کاپھٹنابھی عجیب گھٹناہوتی ہے۔جہاںیہ کچھ لوگوںکی بوٹی کاانتظام کرتی ہے تووہیںاس سے بہت سارے لوگوںکی روٹی کااختتام بھی ہوتاہے۔(ہوم ورک:صفحہ93) تشبیہ رنگ اقتباسات فن اورفن کاردونوںکومعتبرکرتے ہیںاورتنویراحمدتماپوری کے مخصوص فکشن آہنگ کوزندہ جاویدکرتے ہیں۔بقو ل ڈاکٹرسلیم خان’اب بھی اگرآپ کتاب نہیںپڑھتے توآپ کوافسانہ خوانی کے ذوق سے محرومیت کاماتم کرناچاہیے‘۔