ماؤنٹ مانگنوئی، (یو این آئی) ہندوستان کے ممتاز وکٹ کیپر اور بلے باز مہیندر سنگھ دھونی کے عالمی کپ کے ٹیم سے باہر رہنے پر نوجوان ریشبھ پنت کو ٹیم میں پہلی پسند کا وکٹ کیپر مانا جارہا تھا لیکن نیوزی لینڈ دورے میں وہ صرف تماشائی بن کر رہے گئے اور اب تک آٹھ نو میچوں میں ایک میچ میں بھی موقع نہیں مل سکا ہے ۔ ہندوستان کو پچھلے سال انگلینڈ میں ہوئے آئی سی سی عالمی کپ کے سیمی فائنل میں نیوزلینڈ کے ہاتھوں ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس ہار کے لیے بہت حد تک دھونی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا جو آخری اووروں میں رن آؤٹ ہوگئے تھے ۔ دھونی نے اس کے بعد خود کو جیسے ہندوستانی ٹیم سے باہر کر لیا۔ ساتھ ہی سلیکشن کمیٹی کے اس وقت کے چیف ایم ایس کے پرساد نے بھی واضح کر دیا کہ ٹیم کی توجہ مستقبل پر ہے اور پنت ان کی پہلی پسند کے وکٹ کیپر ہیں۔ 22سالہ پنت کو اس کے بعد مسلسل مواقع ملتے رہے لیکن وہ ہر موقع کو دونوں ہاتھوں سے گنواتے رہے ۔ ٹیم مینیجمنٹ، کپتان وراٹ کوہلی، نائب کپتان روہت شرما اور پرساد نے پنت کی صلاحیت پر مسلسل اعتماد ظاہر کیا لیکن وہ ہر بار مایوس کرتے رہے ۔
پنت کے نیوزی لینڈ کے دورے میں ٹی۔20، ون ڈے اور ٹیسٹ تینوں ہی فارمیٹ کے لیے ہندوستانی ٹیم میں شامل کیا گیا ۔ وہ آسٹریلیا کے خلاف گھریلو ون ڈے سیریز کے پہلے میچ میں ممبئی میں کھیلے لیکن اس دوران زخمی ہوگئے ۔اس کے بعد پارٹ ٹائم وکٹ کیپنگ کرنے والے لوکیش راہل کو راجکوٹ اور بنگلورو میں دوسرے اور تیسرے ون ڈے میں موقع دیا گیا۔راہل نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راجکوٹ میں 80 رن بنائے اور وکٹ کے پیچھے دو کیچ لینے کے علاوہ ایک اسٹمپنگ بھی کی۔ بنگلورو میں انہوں نے 19 رن بنائے اور دو کیچ لیے ۔ نیوزی لینڈ میں راہل کو ٹی۔20 سیریز میں وکٹ کیپر کے طور پر آزمایا گیا اور پنت کو باہر بیٹھا دیا گیا۔ راہل اس کسوٹی پر کھرے اترے اور پنت کا انتظار طویل ہوتا گیا۔ٹی۔20 سیریز میں راہل نے 56 ،57 (ناٹ آؤٹ)،27 ،39 اور 45 رن اور ون ڈے سیریز میں 88 (ناٹ آؤٹ)، 4 اور 112 رن بنایا۔ ٹی۔20 سیریز میں انہوں نے وکٹ کے پیچھے چار شکار کیے اور ون ڈے سیریز میں دو شکار کرتے ہوئے وکٹ کیپر بلے باز کے طور پر اپنی جگہ پختہ کر لی۔ آسٹریلیا میں اس سال اکتوربر میں آئی سی سی ٹی۔20 عالمی کپ ہونا ہے اور راہل ٹی۔20 ٹیم میں اپنی جگہ پکی کر چکے ہیں۔ راہل کے کمال نے پنت کی مشکلیں بڑھا دی ہیں لیکن اس صورتحال کے لیے پنت خود بھی بہت حد تک ذمہ دار ہیں جو باربار موقع گنواتے رہے ۔پنت نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی۔20 گھریلو سیریز میں 18، 33 اور صفر ، ون ڈے سیریز ؛میں 71، 39 اور 7 ، سری لنکا کے خلاف ٹی۔20 سیریز میں ناٹ آؤٹ ایک رن اور آسٹریلیا کے خلاف پہلے ون ڈے میں 28 رن بنائے ۔ وکٹ کے پیچھے بھی ان کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی جبکہ ان کا موازنہ دھونی کی کارکردگی سے کیا جاتا رہا۔ اپنے کیریئر میں پنت نے 16 ونڈے میں 374 رن اور 28 ٹی۔20 میں 410 رن ہی بنائے ہیں۔ٹیم میں سنجیو سیمسن کی شکل میں ایک اور نوجوان وکٹ کیپر بلے باز موجود ہے جسے نیوزی لینڈ کے خلاف دو میچوں میں بلے باز کے طور پر موقع مل گیا لیکن پنت ان موقعوں سے بھی محرور رہے حالانکہ سیمسن ان دونوں موقعوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں رہے ۔راہل نے 32 ون ڈے میں 47.65 کی اوسط سے 1239 رن اور 42 ٹی۔20 میں 45.65 کے اوسط سے 1461 رن بناکر خود کو دھونی کے جانشین کے طور پر منوا لیا ہے ۔ ون ڈے میں ان کا اسٹرائک ریٹ 87.06 اور ٹی۔20 میں 146.10 ہے جبکہ پنت کا ون ڈے اسٹرائک ریٹ 103.60 اور ٹی۔20 میں 121.66 ہے ۔ ہندوستان کو نیوزی لینڈ سے 21 فروری سے دوٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے ۔ پنت حالانکہ ٹیسٹ ٹیم کا بھی حصہ ہیں لیکن ٹیم میں تجربہ کار وکٹ کیپرو ردھیمان ساہا پہلی پسند ہیں۔ ساہا کی موجودگی میں پنت کو ٹیسٹ سیریز میں بینچ پر ہی بیٹھنا پڑے گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو پنت نے نیوزی لینڈ کا اب تک پورا دورہ بینچ پر ہی بیٹھ کر گزارا ہے ۔ سابق بلے باز وی وی ایس لکشمن نے پنت کی موجودہ صورتحال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیم مینیجمنٹ ان کے ساتھ کیا مذاق کر رہا ہے ۔ مینیجمنٹ کو پنت پر یہ واضح کرنا چاہیے کہ ہندوستانی ٹیم میں اس وقت ان کی کیا حیثیت ہے ۔ پورے دورے کے آٹھ میچوں میں کسی کھلاڑی کو صرف ایک تماشائی بناکر رکھا جا سکتا ہے ۔ انھیں ٹی۔20 اور ون ڈے کے آٹھ میچوں میں کہیں نہ کہیں موقع ملنا چاہیے تھا خواہ بلے باز کے طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح باہر رکھے جانے سے اس نوجوان کھلاڑی کے حوصلے پر منفی اثر پڑ سکتا ہے جس سے باہر نکلنا اس کے لیے بہت مشکل کام ہوگا۔
ٹی۔20 کے جو 16 ہندوستانی کھلاڑی تھے ان میں پنت ہی ایسے کھلاڑی ہیں جنھیں کسی میچ میں کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ون ڈے سیریزمیں پنت کے علاوہ شیوم دوبے کو بھی کسی میچ میں موقع نہیں دیا گیا۔ اب تو یہ طے ہے کہ ٹیسٹ سیریز میں بھی کھیلنے کا موقع شاید ہی ملے اور اس طرح وہ اس دورے کے واحد ایسے کھلاڑی بن جائیں گے جو تینوں فارمیٹ کی ٹیموں میں موجود ہونے کے باوجود ایک میچ بھی نہ کھیل پائے ۔