ہم غدار نہیں ہیں، پہرے دار ہیں’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے

0
0

 

‘  عبدالعزیز

ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا جب بھی لوک سبھا میں تقریر کرتی ہے ایوان میں ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ بی جے پی کے بیٹھے ہوئے ممبران شور رابہ کرنے پر اتر آتے ہیں، پھربھی مہوا موئترا حق گوئی اور بے باکی سے باز نہیں آتیں۔ لوک سبھا کے حالیہ اجلاس میں انھوںنے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’بی جے پی عام انسانوں، کمزوروں اور غریبوں سے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی ہے۔ آج جب اقتدار بی جے پی کے لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے تو وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور حکمراں جماعت کے لیڈران اور ممبران غریبوں اور کمزوروں سے سوال کر رہے ہیں کہ ’تم اس ملک کے شہری ہو یا نہیں؟تم کو اس ملک کی شہریت ثابت کرنے کیلئے دستاویز دکھانا ہوگا‘۔ یہ تو الیکشن سے پہلے سوال کرنا چاہئے تھا‘‘۔  حقیقت تو یہ ہے کہ ووٹرس یا باشندگانِ ملک سے آج ان کی شہریت دریافت کی جارہی ہے۔ اگر وہ شہری نہیں تھے تو ووٹرس کیسے ہوگئے؟ ان کی شہریت اگر شک و شبہ سے بالاتر نہیں تھی تو الیکشن میں ووٹ دینے کے کیسے وہ مستحق ہوئے؟ ان سوالوں سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اگر غیر شہریوں کے ووٹ سے یہ حکومت وجود میں آئی ہے تو وہ کیسے حکمرانی کرنے یا قانون بنانے کی اہل ہوسکتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب مودی حکومت کو دینا چاہئے۔ مگر یہ حکومت سوال کرنا، الزام لگانا تو جانتی ہے مگر جواب دینا اس کے بس کی چیز نہیں ہے۔ محترمہ مہوا موئترا نے دوسرا اہم سوال یہ کیا کہ ’’جب بھی کوئی مودی یا ان کے وزراء سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ جواب دینے کے بجائے اسے غدارِ وطن، اربن نکسل اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سدسیہ (رکن) ہونے کا الزام لگاتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد ہی مہوا موئترا نے ساحر لدھیانوی کی ایک نظم کا ایک مصرعہ پڑھا کہ ؎  ’جنھیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں؟‘ پھر بغیر کسی توقف کے کہا کہ ’وہ ہم ہیں، وہ ہم ہیں‘۔ ہمیں غدار مت کہو، ہم پہریدار ہیں‘۔ تم حکومت میں ہو تو ہمیں سوال کرنے کا حق ہے۔ اور تمہارا فرض ہے کہ تم جواب دو‘‘۔ساحر لدھیانوی کی جس نظم کا محترمہ موئترا نے ایک مصرعہ پڑھا وہ ایک سبق آموز اردو فلم ’پیاسا‘ کا مشہور نغمہ ہے۔ یہ نغمہ گرچہ بہت پرانا ہے لیکن اس کے کئی بند ایسے ہیں جیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم آج لکھی گئی ہے  ؎ بلندی پہ ہے نفرتوں کی سیاست … بنی ہے یہاں صاف گوئی حماقت … ذلالت کے کاموں سے ملتی ہے عظمت… جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیںنہائی لہو میں یہ تصویر کیوں ہے … سلگتا یہ آسام و کشمیر کیوں ہے … جدا ہند سے ان کی تقدیر کیوں ہے … جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیںملا کوئی لیڈر نہ معقول اب تک… سدھاری نہ ہم نے کوئی بھول اب تک … سلگتے ہیں کشمیر کے پھول اب تک … جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیںجنہیں ناز ہے ہند پر ان کو لاؤ …وطن کے یہ بے نور چہرے دکھاؤ … انہیں آسماں سے زمیں پر تو لاؤ … جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں اس سے پہلے لوک سبھا ہی میں محترمہ مہوا موئترا نے نہایت جامع اور پرمغز تقریر کی تھی۔ تقریر کا اختتام اردو کے مشہور شاعر راحتؔ اندوری کے دو اشعار پر کیا تھا  ؎جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے… کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہےسبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں … کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ’علم سماجیات‘ (Social Science) کے سینئر پروفیسر مسٹرپارتھا ایس گھوش نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’’دنیا بھر میں اس وقت سنگین صورت حال ہے لیکن ہندستان کی سنگینی سب سے بڑھ کر ہے۔ میں ہندستان کی سلطنت کی عمر میری عمر کے برابر ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت ہر وقت سے زیادہ ہندستان کی صورت حال پریشان کن ہے۔ پاکستان سے تین جنگیں لڑی گئی ہیں ۔ کارگل کو شامل کرلیا جائے تو چار جنگیں ہوں گی۔ چین سے بھی ایک جنگ لڑی گئی ہے۔ بایاں بازو کے انتہا پسندوںسے اندرونی چیلنجز بھی بہت ہوئے ہیں۔ نسلی علاحدگی کا طوفان شمال مشرقی ریاستوں اور تاملناڈو میں بھی آیا۔ ایمرجنسی کے زمانے کو بھی میں نے دیکھا، لیکن میں نے کبھی اتنا خوف و ہراس نہیں محسوس کیا کہ ملک کی جغرافیائی سرحد اور سماجی استحکام سب خطرے میں ہے۔ مسلمانوں کی تعداد جو اس وقت ملک میں 14% ہے وہ موہن بھاگوت کیلئے اور ان کے پریوار کیلئے پریشان کن بنا ہوا ہے۔ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے موقع پر مسلمانوں کے اس حصے نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسی سنگین صورت حال میں جبکہ بہت سے مسائل دنیا بھر میں ہیں اور ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ نریندر مودی نے شہریت کے ترمیمی قانون 2019ء کو لاکر ملک کے ساتھ ایک مذاق کیا ہے۔ یہ مذاق ایسا ہے کہ کیا اس پر ان کو نوبل پرائز مل سکتا ہے؟ لیکن میرے خیال میں مذاق میں دم نہیں ہے۔ اس لئے شاید نوبل پرائز کا ادارہ انھیں نا اہل قرار دیدے۔ کیونکہ اس کا جو مقصد ہے بہت معمولی سا ہے اور سیاسی ہے۔ وہ ہندوؤں سے ووٹ لینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پہلے بی جے پی نے ساری طاقت دفعہ 370 کو ختم کرنے، تین طلاق کو فوجداری قانون بنانے، رام مندر کی تعمیر میں جھونک دی تھی۔ اب پوری طاقت CAA، NPR، NRC کیلئے صرف کی جارہی ہے۔ آسام میں این آر سی لاگو کرنے کی کارروائی کی گئی ۔ 3.3 کروڑ لوگوں کی چھان بین ہوئی، جس کیلئے 1600 کروڑ روپئے کا خرچ آیا اور 50 ہزار آفیشیل روز و شب کام کرتے رہے۔  ہندستان کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے۔ اگر پورے ہندستان میں NRC لاگو کیا جاتا ہے تو 66,424 کروڑ روپئے خرچ ہوں گے اور 21 لاکھ آفیشیل اس کام کیلئے متعین کرنے ہوں گے۔ اس کیلئے اتنی رقم کا خرچ اور لاکھوں لوگوں کی محنت لگانے کی ضرورت ہوگی۔ دستاویز دکھانے کی ضرورت ہوگی۔ قطار میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہوگی۔ بیوروکریٹس نئے دستاویزات جو غلطیاں کریں گے اس کی درستگی کیلئے دوڑ دھوپ کرنی ہوگی۔ حراست کیمپ تیار کرنے پر کروڑوں کی رقم خرچ ہوگی۔ آسام میں 6مہینے کی مسلسل کوشش سے 19 لاکھ لوگوں کو شہریت سے محروم کیا گیا۔ سیاسی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے 75% لوگوں کو جو غیر شہری ہوئے ہیں سی اے اے کے ذریعے شہریت دے دی جائے گی اور صرف پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا جائے گا۔ آسام کے بعد بنگال دوسرے نمبرپر ہے۔ یہاں ایک تخمینہ کے مطابق 15 لاکھ مسلمانوں کو غیر شہری قرار دیا جائے گا۔ اس طرح 20 لاکھ لوگوں کیلئے بی جے پی ایک ارب تیس کروڑ ہندستانیوں کا پریشان کر رہی ہے۔ ایک فرد کو غیر شہری قرار دینے کیلئے 700 لوگوں کو پریشان کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مشہور کامیڈین، فلم رائٹر، فلم ایکٹر Varun Grover (ورون گروور)کا یہ نغمہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘ انتہائی معنی خیز ہے اور کسی شہری کا یہ اقدام بالکل صحیح ہوگا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ CAA ایک مذاق نہیں ہے تو مجھے اس کے حسِ مزاح (Sense of Humour)پر ترس آئے گا‘‘۔ مذکورہ تحریر پڑھنے کے بعد مجھے ایک مختصر کہانی یاد آتی ہے۔ ایک تالاب کے مینڈکوں پر بچے ڈھیلے اور پتھر پھینک رہے تھے۔ جب مینڈک بہت پریشان ہوگئے تو مینڈکوں کا سردار بچوں کو مخاطب ہوکر کہا بچو! تمہارے لئے یہ کھیل ہے اور ہم لوگوں کیلئے سامانِ موت ہے۔ آج کچھ ایسی ہی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ مودی اور ان کے لوگوں کیلئے ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ایک کھیل اور مذاق ہے لیکن غریبوں کیلئے وبالِ جان یا حیرانی اور پریشانی کا ذریعہ ہے ۔ یہ کھیل بھی وہ لوگ اس لئے کھیل رہے ہیں کہ اسی کھیل کے ذریعہ وہ ہندستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن اب جو احتجاج اورمظاہرے ہورہے ہیں ان سے تو یہی امید کی جاسکتی ہے کہ کھیلنے والوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ کینن گوپی ناتھ نے جو دفعہ 370 ہٹائے جانے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے سے احتجاجاً مستعفی ہوئے تھے کہاہے کہ ’’موجودہ حکومت کو ہم احتجاج کرنے والے کو مارچ تک کا موقع دیتے ہیں۔ اگر مارچ تک یہ کالا قانون واپس نہیں لیا جاتا تو ہم سب دہلی میں جمع ہوجائیں گے اور جب تک اس کالے قانون کی واپسی نہیں ہوگی ہم لوگ دہلی میں ہی رہیں گے‘‘۔ اگر یہ عزم تمام لوگوں کا ہوجائے، صرف گھروں میں نہ بیٹھیں بلکہ وہ سڑکوں اور میدانوںمیں اتر جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کالے قانون کو ختم کرنے سے نہیں روک سکتی۔ (یو این این)Mob:9831439068

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا