دہلی میں ایک بار پھر ’’عآپ‘‘ کا استقبال ہے

0
0

محمد اویس سنبھلی

جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو شکست ابھی کل ہی بات  ہے ۔ہریانہ میں لے دے کرکے انھوں نے اپنی ساکھ بچا ئی تھی لیکن چند دنوں کے تماشے بلکہ ہائی وولٹیج ڈرامے کے بعد مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کو شردپوار نے شیوسینا اور کانگریس کو ساتھ لے کر اقتدار سے دور کردیا۔اب لوگوں کا اندازہ یقین میں بدل رہا ہے کہ دلی بھی دور ہے ۔ ۸؍فروری کو دارالحکومت دہلی میں اسمبلی الیکشن ہوا۔الیکشن میں پوری کوشش کے باوجود کے باوجودہندو مسلم فضا نہیں بن سکی ۔بلکہ کیجروال کا کارڈ گھوم پھر کر کے سامنے آہی جاتا تھا ۔اب جبکہ الیکشن ہی ہنگامہ آرائی ختم ہوچکی ہے ۔ووٹ ڈالے جاچکے ہیں اس کے بعد جو ایگزٹ پول سامنے آرہے ہیں اس کے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ دلی والوں نے اسمبلی الیکشن میں ’’جھاڑو ‘‘ پھیر دی ہے ۔حتمی طور پریہ تو۱۱؍فروری کو ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے بعد ہی پتا چل سکے گا کہ دہلی کے ووٹرس کی بنیادی ترجیحات کیا تھیں اور تیز ترار سیاسی مداخلتوں نے ان ترجیحات کو اپنی طرف ڈھالنے میں کس حد تک کردار ادا کیا۔ میڈیا نے دہلی کو دارالحکومت ہونے کی وجہ سے اور اس کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے ، یہاں کے الیکشن کی زیادہ سے زیادہ جانچ پڑتال کی اور اب اس الیکشن کی تشریح کی جارہی ہے۔ اسی کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقامی رہنمائوں میں قومی رہنمائوں کی بیان بازی کی زیادتی تناسب سے ہٹ کر رہ جاتی ہے۔ مزید برآں سوشل میڈیا پلیٹ فارم حریف کیمپوں کو خاص طور پر مسالہ اور کلپس گردش کرنے کی اجازت دیتے ہیں ، جس سے بیان بازیوں کو گھر گھر تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔یہی کام عام آدمی پارٹی نے کیا۔ انھوں نے بی جے پی رہنمائوں کو برابھلا کہنے سے گریز کیا لیکن بی جے پی اعلیٰ کمان کی زہریلی تقاریر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے خوب عام کیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے حسب سابق پوری طاقت اور اپنی جانی پہچانی پالیسی کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا ۔اور خاص اہمیت اس بات کو دی کہ قومی امور کو ایک ایسی لڑائی کے لیے مجبور کیا جائے جو مثالی طور پر مقامی معاملات تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ امت شاہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شاہین باغ میں جاری احتجاج کوخاص حکمت عملی کے طور پر توجہ کا مرکز بنانے کی ہرممکن کوشش کی تاکہ ہندوستانی شناخت پر مبنی بڑے سوالات کو جنم دیا جاسکے۔ امت شاہ نے شاہین باغ کو صرف اس لیے ٹارگیٹ کیا کہ اس کے ذریعہ پانی ، بجلی پر ملنے والی سبسڈی کا ذکر نہ آئے ۔اور تعلیم و صحت کے میدان میں کیجریوال حکومت کی کامیابی سے عوام کی توجہ ہٹا ئی جاسکے۔اور لوگوں کے ذہنوں کو ان کے اپنے موضوعات سے ہٹا دیا جائے ۔ بی جے پی کے لیے یہ اس وجہ سے بھی ضروری تھا کہ اس کے بعد کہنے کے لیے ایسا کچھ نہیں تھا۔اس حکمت عملی کی وجہ یہ بھی تھی کہ چاہے جس طرح سے بھی کچھ سیٹیں اس کی جھولی میں آجائیں کیونکہ اس کے پاس دہلی میں کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا لیکن کچھ حاصل کرنے کے لیے اسے ایک ایسی حکومت سے لڑنا تھا جو صرف کام پرووٹ مانگ رہی تھی۔اور یہ کام جس کا دلی والوں کو اقرار تھا ۔اسی لیے بی جے پی نے ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی، لیکن اس جارحانہ مہم سے بھی اسے فی الحال توفائدہ نظر نہیں آرہا۔ بی جے پی پوری طاقت سے دہلی الیکشن میں اتری ۔ اس نے الیکشن میں خود کو ہندوئوں کا محافظ بتایا۔بی جے پی حکومت کی تمام ریاستوں کو وزیر اعلیٰ اور مرکزی حکومت کے تقریباً وزرا نے دہلی کی انتخابی  مہم میں حصہ لیا۔یوگی ادتیہ ناتھ نے ’’بریانی‘‘ کو گندگی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی اور یہ تک کہہ دیا کہ ’’اروند کجریوال شاہین باغ کے مظاہرین کو بریانی کھلا سکتے ہیں‘‘۔بی جے پی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل کی گئی جس میں راہل گاندھی کو مبینہ طور پر عمران خان کے ساتھ چکن بریانی لگاتے ہوئے دکھایا گیاتھا۔اس میں دکھایا گیا تھا کہ جب بدکاری کی بات کی جاتی ہے تو بریانی کو سپر فوڈ سمجھا جاتا ہے۔یہاںلفظ ’’بریانی ‘‘ کا استعمال اس کو ایک خاص مذہب سے جوڑ کر رائے دہندگان کو پولرائز کرنے کے لیے کیا گیا۔ورنہ ہندوستان میں بریانی سب کو پسند ہے کیونکہ سویگی کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں نے ۲۰۱۹ء میں فی منٹ میں ۹۵؍بریانیوں کا آرڈر دیا ۔ اس سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب جب یوگی آدتیہ ناتھ بطور گندگی’’بریانی ‘‘ کو نشانہ بناتے ہیں تو اس کی اس سبھا میں سے چند لوگ وہاں سے اُٹھ کرچل دیتے ہوں گے کہ چلو بریانی کھاتے ہیں بڑی بھوک لگی ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے علاوہ پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے زہریلے بیانات اور نعروں کا دہلی کے ووٹرس پر شاید زیادہ اثر نہیں ہوسکا۔اروند کجریوال کو ’’آتنک وادی‘‘ کہنا ،ایک بڑا الزام تھا اور اس پر کجروال کا انتہائی شانت ری ایکشن کہ ’’دلی کی جنتا اگر میں آتنک وادی ہوں تو مجھے ووٹ نہ دینا‘‘ یا ’’اگر میں نے دلی میں کام کیا ہو تو مجھے ووٹ دینا ورنہ نہ دینا‘‘ یہ سب بی جے پی کے زہریلے نعروں اور جارہانہ مہم پر بھاری پڑگیا۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی دوسب سے بڑی کمزوری رہی ایک مقامی مسائل پر بات نہ کرنا اور دوسرا ایسے کسی امید وار کا نہ ہونا جو کیجروال کا متبادل ہوسکے۔حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جو الیکشن ہوئے ہیں اس میں بھی دلی کے لیے بی جے پی کے پاس کوئی بڑا چہرہ نہیں تھا۔اس بار بھی بی جے پی نہ اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی دیر میں کیا اور مجموعی طورپر وہ ایسی کوئی بات نہیں کہہ پائے جو ’سب کا وکاس ‘کا متبادل بن سکے ۔یہ بڑی ناکامیاں ہیں اور یہ صرف قومی قیادت پر زیادہ سیاسی انحصار کی وجہ سے ہیں۔نریندر مودی اور امت شاہ بی جے پی نے دو قائد حاصل کرلیے ہیں جن کی بات کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ پوری پارٹی میں انھیں دو کو اختیارات حاصل ہیں ۔حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ گردش کررہی ہے جس میں بی جے پی کے نئے قومی صدر جے پی نڈّا نریندر مودی اور امت شاہ کے ساتھ عوام سے روبہ رو ہونے کو آگے بڑھتے ہیں تو امت شاہ جے پی نڈّا کا ہاتھ پکڑ کر انھیں کنارے کردیتے ہیں اور خود امت شاہ اور مودی عوام سے روبہ رو ہوتے ہیں۔یہ دونوں اس وقت بی جے پی کے سب سے مضبوط قائد ہیں تاہم مضبوط قومی قیادت کی موجودگی مضبوط علاقائی رہنمائوں کا متبادل نہیں ہے۔ اگر اینٹی انکم بینسی موڈ شدید ہو تبھی مقامی مخالف چہرے کی عدم موجودگی کو ووٹر کے ذریعہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن دہلی میں ایسا نہیں ہوا۔کجریوال سب کی پہلی پسند نہیں ہوسکتے لیکن اس کے کام اور اس الیکشن میں اس کی زبان نے دلوں میں نفرت پیدا نہیں ہونے دی۔یہی اس کی جیت کا راز ہوگا ۔(یو این این)

رابطہ: 9794593055

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا