یادوں کی بارات

0
0

سرفرازاحمد،پونچھ
7298466856
ساون کی اندھیری رات کو وہ اپنے دالان میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا،رات کی تاریکی،آندھی،موسلادھار بارش اور بجلی کی گرج چمک تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی جو اس کو اور زیادہ بے چین کر رہی تھی۔
بچپن میں لاڈ و پیار سے پلا ساغر اب کتاب زندگی کے تیس سنہرے باب مکمل کر چکا تھا۔زندگی کے اس تیس سالہ سفر میں اسے ہر موڑ پر کء طرح کے تجربات حاصل ہوئے،کء طرح کے لوگوں سے پالا پڑا۔ لائق،ہوشیار اور بلا کا ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اچھے اخلاق و کردار کا مالک بھی تھا۔اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد،غربا،مساکین اور سماج کے گرے پڑے لوگوں کی خدمتِ کر سکے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ساغر نے دن رات مشقیں اٹھائیں،کء طرح کے مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،یہاں تک کہ اپنی آشنا ‘نوری ‘ کی شادی کی پیشکش کو بھی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ جب وہ کوئی اچھی نوکری حاصل کرے گا تب اس سے شادی کرے گا،مگر سب اس کہ برعکس ہوا۔
دراصل وہ ایک ایسے سماج کا حصہ تھا جہاں رشوت خوری،اقربا پروری اور بد عنوانی اپنے نوکیلے دانتوں سے سماج کو نوچ رہی تھی،جہاں کسی غریب کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔بس اسی لئے اس کی ایک اچھا انسان بننے کی خواہش دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔
یہ
سب اپنی جگہ اس پہ طرہ یہ کہ بارگاہ ایزدی سے کچھ اور امتحانات اس کا مقدر بن گئے یا یوں کہیں کہ کچھ گھریلو آزمائشوں سے اسے دوچار ہونا پڑا۔ رات کی سیاہی آندھی،بارش اور بجلی کی کوند جہاں دل کو دہلاتی وہیں ساغر کے ذہن میں ارمانوں کا ایک بہر بیکراں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی اور سکرین پر اس کے دوست زاہدِ کا نام نمودار ہوا، کانپتے ہوئے فون اٹھایا، زاہد فوراً بھانپ گیا کہ ہو نہ ہو آج میرا دوست کسی گہری سوچ میں گم ہے، ہاں ساغر میاں کن یادوں میں کھوئے ہو؟ ساغر نے ایک سرد آہ بھری اور اس کی زبان سے بے ساختہ یہ شعر نکلا
یادوں کے دریچے مت کھولو جو بیت گیا سو بیت گیا
یہ کھیل ہے بس تقدیروں کا کوئی ہار گیا کوئی جیت گیا۔
یہ شعر سن کر زاہد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بولا ”دوست میں نے ایک دردناک خبر سنی جو تمہارے ساتھ ساجھی کرنا چاہتا تھا مگر تم پہلے ہی دکھی ہو اس لئے نہیں سناوں گا ” ساغر ”تمہیں اپنے دوست کی قسم ” زاہد ” تمہاری نوری کی شادی پڑوس کے احمد کے ساتھ تہہ ہو گئی ہے ”
ساغر پہ جیسے بجلی سی گر گء ہو،جہاں ایک اچھی نوکری کی خواہش ادھوری رہ گئی،بچپن و جوانی کے بیتے لمحوں کی یادوں نے اسے بے چین کر کہ رکھا تھا،وہیں نوری کے گھر بارات لے کر جانے کا اس کا آخری سپنا بھی چور چور ہو کہ رہ گیا تھا، اب اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا، ہاں اگر کچھ بچا تھا تو وہ تھیں یادیں،نوری کے گھر بارات لے کر تو وہ نہ جا سکا،مگر اپنے ساتھ یادوں کی ایک بارات لے کر وہ چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا