تکنیکی وجوہات عدالتِ اعظمیٰ کو مکمل انصاف سے نہیں روک سکتیں :مرکز

0
0

یواین آئی

نئی دہلی؍؍مرکزی حکومت نے سبري مالا معاملے میں جمعرات کو سپریم کورٹ میں کہا کہ کوئی بھی تکنیکی وجوہات عدالت کو مکمل انصاف سے نہیں روک سکتیں ۔ ادھر نظر ثانی عرضی دائر کرنے والوں نے کہا کہ متعلقہ آئینی بینچ کو سب سے پہلے ان کی درخواستوں کا تصفیہ کرنا چاہئے تھا، اس کے بعد دیگر اہم پہلوؤں پر بعد میں غور کرنی چاہئے تھی ۔ آئینی بینچ میں جسٹس آر بھانو متی ، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس ایم ایم شانتا نگودر، ایس عبد نذیر، جسٹس آر سبھاش ریڈی، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت بھی شامل ہیں۔مرکزی حکومت کی جانب سے سالسٹر جنرل تشار مہتہ نے چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے کی سربراہی والی نو رکنی آئینی بنچ کے سامنے دلیل دی کہ کوئی بھی تکنیکی وجوہات عدالت کو مکمل انصاف سے نہیں روک سکتی ۔ مسٹر مہتا نے دلیل پیش کی کہ ہم جنس پرستی کے مسئلے پر بھی سپریم کورٹ نے کیوریٹو عرضی کی سطح پر جاکر مداخلت کی اور اپنا فیصلہ دیا تھا تو اس معاملے میں مختلف اہم پہلوؤں پر عدالتی رولنگ دینے سے کسے روکا جا سکتا ہے ۔ کیرالہ حکومت کی جانب سے پیش جئے دیپ گپتا نے مسٹر مہتا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی عرضیوں کو نمٹانے کے دوران دیگر پہلوؤں کو شامل کرنے سے سبری مالا کے اصل تنازعہ سے انصاف بھٹک جائے گا۔انہوں نے بھی کہا کہ نظر ثانی عرضی کا نمٹا را کرنے کے بعد ہی دیگر پہلوؤں پر غور و خوص ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا ۔ایک عرضی گزار کی جانب سے پیش سینئر وکیل پھلی ایس نریمن نے بھی دلیل دی کہ نظر ثانی عرضی کا دائرہ بہت محدود ہے ۔سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے بھی مسٹر نریمن کی دلائل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی عرضی کا نمٹا را پہلے کیا جانا چاہئے تھا۔آئین بینچ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کیا نظر ثانی عرضی داخل ہونے پر عدالتِ اعظمیٰ قانونی سوالات پر سماعت ججوں کی بڑی بینچ کو بھیج سکتی ہے ؟ اس معاملے پر نو ججوں کی آئینی بینچ دلایل سن رہی ہے ۔ یہ بینچ مختلف مذہب اور مذہبی مقامات میں خواتین سے امتیازی سلوک کے معاملات کی سماعت کر رہی ہے ۔ گزشتہ سال پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے مذہبی مقامات پر خواتین اور لڑکیوں کے داخلے کو روکنے جیسی مذہبی روایات کی آئینی جوازیت کے معاملے کو بڑی بینچ کو بھیجا تھا، ساتھ ہی کہا تھا کہ مذہبی مقامات پر خواتین کے داخلے پر روک کا معاملہ صرف سبري مالا معاملے تک محدود نہیں ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا