جمہوریت کے حقیقی محافظ کون ہیں؟

0
0

جمہوریت کی بنیاد انصاف ومساوات پر قائم ہے اور دکھ کے ساتھ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آزادی کے ۷۲ سال گزرجانے کے باوجود ہندوستان میں انصاف ومساوات کا حال بہتر نہیں ہوا، یہاں کے عوام کو کافی حد تک سیاسی جمہوریت تو میسر آگئی لیکن اس کو معاشی جمہوریت میں تبدیلی نہیں کیا جاسکا۔ حالانکہ ہر فلاحی جمہوری حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ جہاں حکومت کے کاروبار میں جمہوری اصولوں کو اپنائے وہیں ایسے اصول وقانون بھی بنائے جن میں ہر شہری کو اپنی ضرورت کے مطابق روزی و روٹی کمانے کا مساوی حق ہو، ملک کی دولت سے وہ فائدہ اٹھائے اور معاشی نظام ایسا ہو کہ وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائیں۔ مزدوروں کا استحصال نہ ہو، صنعتوں کے انتظام میں محنت کش برابر کے شریک ہوں، معذوروں اور عمر رسیدہ باشندوں کی سرکار مدد کرے، غریبوں کیلئے مفت قانونی مدد کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ غریبی کی وجہ سے انصاف سے محروم نہ رہ جائیں، اس میں بھی سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ درج فہرست ذاتوں (دلتوں) درج فہرست اقوام (آدیباسیوں) اور دوسرے پچھڑے طبقات سے متعلق دستور کے ہدایتی اصولوں کو تشفی بخش طریقہ سے عملی جامہ پہنایا جائے اور گائوں پنچایتوں نیز گھریلو صنعتوں کا قیام کرکے نشہ بندی اور ایسے ہی دوسرے عوامی بہبودی کے کام کئے جائیں لیکن گزشتہ ۲۶ برسوں سے جس اقتصادی کھلے پن کی پالیسی کو ہندوستان میں نافذ کیا جارہا ہے اس کے نتیجہ میں نہ صرف غریب پہلے سے زیادہ غریب اور امیر طبقہ پہلے سے زیادہ خوشحال ہورہا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی گھٹ رہے ہیں، دولت مخصوص ہاتھوں تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال ہماری اس فلاحی جمہوریت سے میل نہیں کھاتی جس کو بڑی چاہ سے یہاں اپنایا گیا تھا ایک اچھے جمہوری دستور کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ زمانہ کی ترقیوں کا ساتھ دے اس لئے اس کو جامد نہیں ہونا چاہئے لیکن اتنا لچکدار بھی نہیں کہ مفاد عامہ کا ہی اُس میں لحاظ نہ ہو۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کے اس جمہوری نظام پر چھائے مذکورہ خطرات اور ان کی سنگینی سے ہر باشعور ہندوستانی واقف ہو کیونکہ باخبر عوام ہی جمہوریت کے حقیقی محافظ ہوتے ہیں اور اُن کو درپیش مسائل صرف مقننہ (پارلیمنٹ) عدلیہ (سپریم کورٹ) اور انتظامیہ (سرکاری مشنری) سے حل نہیں ہوسکتے ، خاص طور پر جمہوریت کا ایک بازو جب دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتا ہے تو اِس سے پیدا ہونے والے مسائل اِن تینوں کے بجائے زیادہ بہتر طریقہ پر باخبر عوام ہی سلجھا سکتے ہیں، حکومت کا کاروبار چلانے والے کسی قائد یا اس کی پارٹی کی غیر ذمہ داری سے جب جمہوری نظام کو صدمہ پہونچتا ہے تو اس کو سنبھالنے والے عوام ہی ہوتے ہیں جیسا کہ ۱۹۷۵ء میں ہوا کہ ایک خود پسند وزیر اعظم کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی لگاکر جمہوریت کا خون کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت سپریم کورٹ، پارلیمنٹ یا سرکاری مشنری نے ہندوستانی جمہوریت کی حفاظت کا کام نہیں کیا بلکہ ملک کے ایک ذمہ دار سیاسی رہنما جے پرکاش نارائن نے عوام کو بیدار کیا اور الیکشن کے موقع پر متحد کرکے ایسی موثر پہل کی کہ ایمرجنسی کے حامی لیڈر اور ان کی پارٹی دونوں کو اقتدار سے باہر نکلنا پڑا لہذا اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے کہ باشعور عوام ہی جمہوریت کے حقیقی محافظ ہوتے ہیں۔(تحریر:عارف عزیز(بھوپال)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا