جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا ہوگا کہ وہ مسلمان نہیں ہے
ترتیب: عبدالعزیز
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا‘‘۔ (سورہ احزاب: آیت 66) تشریح: صاحب تفہیم القرآن نے الاحزاب کی آیت 66کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ابن عباسؓ ، مجاہد، قتادہ، عِکرمہ اور مقاتل بن حیان کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ کیلئے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینبؓ اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضورؐ نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینبؓ نے کہا انا خیر منہ نسباً، ’’میں اس سے نسب میں بہتر ہوں‘‘۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انھوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لا ارضاہ لنفسی و انا ایم قریش، میں اسے اپنے لئے پسند نہیں کرتی ، میں قریش کی شریف زادی ہوں‘‘۔ اسی طرح کا اظہارِ نا رضا مندی ان کے بھائی عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔ اس لئے کہ حضرت زید بن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی (اُمیمہ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضورؐ کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے اور اس کا پیغام آپؐ اپنے آزاد کردہ غلام کیلئے دے رہے ہیں۔ اس پر آیت نازل ہوئی، اور اسے سنتے ہی حضرت زینبؓ اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامل سر اطاعت خم کر دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح پڑھایا، خود حضرت زیدؓ کی طرف سے دس دینار اور 60درہم مہر ادا کیا، چڑھاوے کے کپڑے دیئے اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کیلئے بھجوادیا۔ یہ آیت اگر چہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظام زندگی پر ہوتا ہے۔ اس کی رو سے کسی مسلمان فرد یا قوم یا ادارے یا عدالت یا پارلیمنٹ یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اس میں وہ خود اپنی آزادیِ رائے استعمال کرے۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسولؐ کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہوجانے کے ہیں، کسی شخص یا قوم کا مسلمان بھی ہونا اور اپنے لئے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویّوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کرسکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکم خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہوگا اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا۔ (یو این این)