کیا دہلی کی عوام حاکم رشید کو دوبارہ منتخب کریںگی ؟

0
0

بسم اللہ تعالیٰ
ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد 9890000552

 

شہریت ترمیمی قانون، این سی آر اور این پی آر کے خلاف ملک گیر سطح پر جاری احتجاجی ماحول میں دہلی ریاست کے اسمبلی انتخابات عمل میں آرہے ہیں۔ ۸ فروری کو اس کے لئے رائے دہی ہونا ہے۔ ایسے وقت میں پورے ملک کی نگاہیں دہلی کے انتخابی نتائج پر ٹکی ہوئیں ہیں۔ یہ انتخاب یہ طئے کرے گا کہ عوام میں بی جے پی حکومت کے تئیں واقعی غم و غصہ ہے یا نہیں۔ یہ نتائج یہ بھی طئے کریں گے کہ کیا ملک کی عوام عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہے یا صرف نفرت کی سیاست میں ڈوب کر ہندو مسلم خطوط پر ملک کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ ملک بھر میں جاری احتجاجی سلسلہ میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی راست تعلق نہیں ہے، نہ یہ احتجاج کسی سیاسی جماعت کے اشارہ پر شروع ہوا اور  نہ ہی کسی سیاسی رہنماء کی قیادت اورایماء پر ہوا ، اس احتجاج کا محرک عوام کا وہ غصہ ہے جو پچھلے پانچ سالوں سے ان کے قلوب کو بے چین کیے ہوئے تھا۔ بغیر کسی سیاست کے یہ ایک عوامی احتجاج ہے جس کی قیادت خود عوام کر رہی ہے ۔ لیکن بر سر اقتدار بی جے پی غیر ضروری طور پر کانگریس پارٹی کو اس احتجاج کا کریڈٹ دینے کی کوشش کر رہی ہے ، بی جے پی کے رہنما بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ احتجاجیوں کو کانگریس گمراہ کر رہی ہے۔ اس کذب بیانی کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد ہیکہ دہلی کی سیکولر عوام کو گمراہ کیا جائے۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ دہلی کی عوام نے گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کی فرقہ پرستی ، اور کانگریس کے جھوٹے سیکولر ازم کو مستردکرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے نام پر کیجریوال کی عاپ پارٹی کو اکثریت سے منتخب کیا تھا، پچھلی بار فرقہ پرستوں کے مقابلہ میں سیکولر عوام نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا اس نے بی جے پی کو آج پھر پریشان کیا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کانگریس کو از خود بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے لئے یہ ضروری ہے، جس سے عاپ پارٹی کو نقصان ہو اور بی جے پی کا فائدہ۔ ان حالات میں دہلی کے عوام اور خواص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں سیکولر ووٹوں کو تقسیم نہ ہونے دیں۔ دوسری اہم بات جو اس الیکشن کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بناتی ہے وہ یہہ کہ یہ انتخابات طئے کریں گے کہ عوام ایک فلاحی حکومت چاہتی ہے یا نہیں؟ وہ حکومت جس نے گذشتہ پانچ سالوں میں عوامی فلاح و بہبود کے بے شمار کام انجام دیے ہیں اگر کسی وجہ سے عوام اس کو اپنے کاموں کی رسید سے محروم رکھتے ہیں تو یہ عوام کی بد بختی ہوگی حکمراں کی نہیں۔آزاد بھارت کی ستر سالہ تاریخ میں دہلی کی کیجریوال حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے لگاتار غریب عوام کی فلاح و بہبود کے کام کئے ہیں۔ چاہے معاملہ بجلی اور پانی کا ہو یا اسکول اور دواخانوںکا ہو۔ ہر محاذ پر کیجریوال حکومت نے ایسے اقدامات کئے جس سے عوام کو راحت ملی۔ بھارت کی کسی ریاست میں غریبوں کے لئے نہ مفت بجلی کا انتظام ہے اور نہ ہی پانی کا، نجی اسپتالوں کا تو حال ہی برا ہے سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج مہنگا ترین ہوتا جارہا ہے ایسے میں غریب عوام کو مفت طبی سہولیات مہیا کروانا کیجریوال کا ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال پورے ملک میں ناپید ہے۔ تعلیم کے معاملے میں کیجریوال نے جو اصلاحات کیں ہیں وہ دہلی کی تاریخ میںسنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا درجہ اتنا بلند کرنا کہ لوگ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکول میں بھرتی کروانے لگیںیہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ کیجریوال کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔۱۲۸۱؍ غیر قانونی بستیوں میں سڑک اور نالیوں کی تعمیر، ۹۵۰ کالونیوں میں ڈرینیج لائن کی تنصیب، پانچ سو سے زیادہ کالونیوں میں پانی کی پائپ لائن بچھا نا۔بیس ہزار لیٹر پانی مفت، سو یونٹ تک بجلی کا کوئی بل نہیں، شہیدوں کے ورثہ کو ایک کروڑ روپیہ کی امداد، خواتین کو مفت سفری سہولت، ریاست کی سالانہ آمدنی تیس ہزار کرووڑ سے بڑھا کر ساٹھ ہراز کروڑ کرناوہ بھی بنا کسی ٹیکس میں اضافہ کے، بر خلاف ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی، اور تاجر برادری کو اس بات کے لئے راضی کیا گیا کہ وہ بغیر کسی زور زبردستی کے اپنا ٹیکس بھریں جس کا استعمال عوامی کاموں کے لئے کیا جاسکے اور لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔غرض یہ کہ ہر محاذ پر دہلی سرکار نے عوام کی بھلائی کو ملحوظ رکھا، اور یہ تمام کام اس شفافیت کے ساتھ انجام دئے کہ ان میں کہیں کوئی بد عنوانی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ حالانکہ اس دوران مرکزی حکومت نے خفیہ اداروں کے علاوہ انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ دہلی حکومت کو گھیرنے کی کئی بار کوشش کیں لیکن ہر بار نتیجہ صفر نکلا۔ بد عنوانی سے پاک انتظامیہ کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ دہلی کا ایک فلائی اُوورجس کا تخمینہ تقریباً سوا تین سو کروڑ تھا اس کام کو کیجریوال حکومت نے صرف دو سو کروڑ میں مکمل کرلیا، یہ از خود ملک کی تاریخ میں شفافیت کی ایک مثال ہے، ورنہ ملک بھر میں رواج یہ ہے کہ کسی بھی پروجیکٹ کی تکمیل تک اس کا خرچ تخمینی لاگت سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ سربراہ مملکت کی نیت صاف ہے یہی وجہ ہے کہ اس حکومت پر آج تک بد عنوانی کا ایک بھی مقدمہ قائم نہیں ہوسکا۔ کمٹرولر آف آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے نے پچھلے پانچ سالوں کی آڈٹ کرنے کے بعد کیجریوال حکومت کی تعریف کرتے ہوئے اسے اس بات کی سند دی ہے کہ یہ حکومت پچھلے پانچ سالوں میںمنافع بخش رہی ہے۔مذکورہ تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو بے شک کیجریوال حکومت کو ایماندار سرکار کے خطاب سے نوازا جاسکتا ہے جس کی نظیر آج تک کسی ریاست میں دیکھنے کو نہیں ملی، اور اسی کو گڈ گورننس کہتے ہیں جس کے لئے عربی زبان میں ایک لفظ الحکم رشید استعمال ہوتا ہے اس مناسبت سے اردو زبان میں کیجریوال کو حاکم رشید کا خطاب دیا جانا چاہیے۔ لیکن صرف خطاب دینے سے کام نہیں چلے گا، اچھی حکومت کی برقراری اور دوبارہ اسے اقتدار تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی عوام کو قبول کرنی ہوگی۔ اگر دہلی کی عوام نے ناسمجھی اور نادانی میں ، یا کسی ذاتی مفادات کی خاطر کیجریوال کا ساتھ نہ دیتے ہوئے اپنے ووٹوں کا غلط استعمال کیا تو یہ احسان فراموشی ہوگی اور ہمیں یقین ہے کہ دہلی کی عوام احسان فراموش نہیں ہے وہ کیجریوال کے احسانوں کا بدلہ احسان مندی سے دیں گے۔ کیجریوال کا ساتھ دینے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آئندہ پانچ سال تک دہلی کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میںمزیداضافہ ہوگا اور دوسری طرف فرقہ پرستوں کے منصوبے ناکام ہو جائیں گے جو یہ چاہتے ہیں کہ عوام اپنی روز مرہ کی ضروریات اور تکالیف کو بھول کر صرف فرقہ پرستی میں الجھ  کر رہ جائیں ۔ہماری دہلی کی عوام سے پُر خلوص اور ادباً گزارش ہے کہ وہ اپنے ایک ایک ووٹ سے با شعور ہونے کا ثبوت دیں اور عاپ پارٹی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو ووٹ ڈال کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پھر کوئی سیاسی رہنما کیجریوال بننے کی کوشش نہیں کرے گا، سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو یہ پیغام جائیگا کہ عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کے بعد بھی لوگوں نے کیجریوال کو مسترد کردیا اس لئے بہتر یہی ہے کہ حسب روایت جب تک اقتدار میں ہیں اقتدار کے مزے لوٹے جائیں، سیاست کو جائز ناجائز دولت کمانے کا ذریعہ بنایا جائے ،عوام جائیں بھاڑ میں۔(یو این این) شہریت ترمیمی قانون، این سی آر اور این پی آر کے خلاف ملک گیر سطح پر جاری احتجاجی ماحول میں دہلی ریاست کے اسمبلی انتخابات عمل میں آرہے ہیں۔ ۸ فروری کو اس کے لئے رائے دہی ہونا ہے۔ ایسے وقت میں پورے ملک کی نگاہیں دہلی کے انتخابی نتائج پر ٹکی ہوئیں ہیں۔ یہ انتخاب یہ طئے کرے گا کہ عوام میں بی جے پی حکومت کے تئیں واقعی غم و غصہ ہے یا نہیں۔ یہ نتائج یہ بھی طئے کریں گے کہ کیا ملک کی عوام عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہے یا صرف نفرت کی سیاست میں ڈوب کر ہندو مسلم خطوط پر ملک کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ ملک بھر میں جاری احتجاجی سلسلہ میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی راست تعلق نہیں ہے، نہ یہ احتجاج کسی سیاسی جماعت کے اشارہ پر شروع ہوا اور  نہ ہی کسی سیاسی رہنماء کی قیادت اورایماء پر ہوا ، اس احتجاج کا محرک عوام کا وہ غصہ ہے جو پچھلے پانچ سالوں سے ان کے قلوب کو بے چین کیے ہوئے تھا۔ بغیر کسی سیاست کے یہ ایک عوامی احتجاج ہے جس کی قیادت خود عوام کر رہی ہے ۔ لیکن بر سر اقتدار بی جے پی غیر ضروری طور پر کانگریس پارٹی کو اس احتجاج کا کریڈٹ دینے کی کوشش کر رہی ہے ، بی جے پی کے رہنما بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ احتجاجیوں کو کانگریس گمراہ کر رہی ہے۔ اس کذب بیانی کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد ہیکہ دہلی کی سیکولر عوام کو گمراہ کیا جائے۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ دہلی کی عوام نے گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کی فرقہ پرستی ، اور کانگریس کے جھوٹے سیکولر ازم کو مستردکرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے نام پر کیجریوال کی عاپ پارٹی کو اکثریت سے منتخب کیا تھا، پچھلی بار فرقہ پرستوں کے مقابلہ میں سیکولر عوام نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا اس نے بی جے پی کو آج پھر پریشان کیا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کانگریس کو از خود بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے لئے یہ ضروری ہے، جس سے عاپ پارٹی کو نقصان ہو اور بی جے پی کا فائدہ۔ ان حالات میں دہلی کے عوام اور خواص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں سیکولر ووٹوں کو تقسیم نہ ہونے دیں۔ دوسری اہم بات جو اس الیکشن کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بناتی ہے وہ یہہ کہ یہ انتخابات طئے کریں گے کہ عوام ایک فلاحی حکومت چاہتی ہے یا نہیں؟ وہ حکومت جس نے گذشتہ پانچ سالوں میں عوامی فلاح و بہبود کے بے شمار کام انجام دیے ہیں اگر کسی وجہ سے عوام اس کو اپنے کاموں کی رسید سے محروم رکھتے ہیں تو یہ عوام کی بد بختی ہوگی حکمراں کی نہیں۔آزاد بھارت کی ستر سالہ تاریخ میں دہلی کی کیجریوال حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے لگاتار غریب عوام کی فلاح و بہبود کے کام کئے ہیں۔ چاہے معاملہ بجلی اور پانی کا ہو یا اسکول اور دواخانوںکا ہو۔ ہر محاذ پر کیجریوال حکومت نے ایسے اقدامات کئے جس سے عوام کو راحت ملی۔ بھارت کی کسی ریاست میں غریبوں کے لئے نہ مفت بجلی کا انتظام ہے اور نہ ہی پانی کا، نجی اسپتالوں کا تو حال ہی برا ہے سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج مہنگا ترین ہوتا جارہا ہے ایسے میں غریب عوام کو مفت طبی سہولیات مہیا کروانا کیجریوال کا ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال پورے ملک میں ناپید ہے۔ تعلیم کے معاملے میں کیجریوال نے جو اصلاحات کیں ہیں وہ دہلی کی تاریخ میںسنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا درجہ اتنا بلند کرنا کہ لوگ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکول میں بھرتی کروانے لگیںیہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ کیجریوال کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔۱۲۸۱؍ غیر قانونی بستیوں میں سڑک اور نالیوں کی تعمیر، ۹۵۰ کالونیوں میں ڈرینیج لائن کی تنصیب، پانچ سو سے زیادہ کالونیوں میں پانی کی پائپ لائن بچھا نا۔بیس ہزار لیٹر پانی مفت، سو یونٹ تک بجلی کا کوئی بل نہیں، شہیدوں کے ورثہ کو ایک کروڑ روپیہ کی امداد، خواتین کو مفت سفری سہولت، ریاست کی سالانہ آمدنی تیس ہزار کرووڑ سے بڑھا کر ساٹھ ہراز کروڑ کرناوہ بھی بنا کسی ٹیکس میں اضافہ کے، بر خلاف ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی، اور تاجر برادری کو اس بات کے لئے راضی کیا گیا کہ وہ بغیر کسی زور زبردستی کے اپنا ٹیکس بھریں جس کا استعمال عوامی کاموں کے لئے کیا جاسکے اور لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔غرض یہ کہ ہر محاذ پر دہلی سرکار نے عوام کی بھلائی کو ملحوظ رکھا، اور یہ تمام کام اس شفافیت کے ساتھ انجام دئے کہ ان میں کہیں کوئی بد عنوانی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ حالانکہ اس دوران مرکزی حکومت نے خفیہ اداروں کے علاوہ انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ دہلی حکومت کو گھیرنے کی کئی بار کوشش کیں لیکن ہر بار نتیجہ صفر نکلا۔ بد عنوانی سے پاک انتظامیہ کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ دہلی کا ایک فلائی اُوورجس کا تخمینہ تقریباً سوا تین سو کروڑ تھا اس کام کو کیجریوال حکومت نے صرف دو سو کروڑ میں مکمل کرلیا، یہ از خود ملک کی تاریخ میں شفافیت کی ایک مثال ہے، ورنہ ملک بھر میں رواج یہ ہے کہ کسی بھی پروجیکٹ کی تکمیل تک اس کا خرچ تخمینی لاگت سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ سربراہ مملکت کی نیت صاف ہے یہی وجہ ہے کہ اس حکومت پر آج تک بد عنوانی کا ایک بھی مقدمہ قائم نہیں ہوسکا۔ کمٹرولر آف آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے نے پچھلے پانچ سالوں کی آڈٹ کرنے کے بعد کیجریوال حکومت کی تعریف کرتے ہوئے اسے اس بات کی سند دی ہے کہ یہ حکومت پچھلے پانچ سالوں میںمنافع بخش رہی ہے۔مذکورہ تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو بے شک کیجریوال حکومت کو ایماندار سرکار کے خطاب سے نوازا جاسکتا ہے جس کی نظیر آج تک کسی ریاست میں دیکھنے کو نہیں ملی، اور اسی کو گڈ گورننس کہتے ہیں جس کے لئے عربی زبان میں ایک لفظ الحکم رشید استعمال ہوتا ہے اس مناسبت سے اردو زبان میں کیجریوال کو حاکم رشید کا خطاب دیا جانا چاہیے۔ لیکن صرف خطاب دینے سے کام نہیں چلے گا، اچھی حکومت کی برقراری اور دوبارہ اسے اقتدار تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی عوام کو قبول کرنی ہوگی۔ اگر دہلی کی عوام نے ناسمجھی اور نادانی میں ، یا کسی ذاتی مفادات کی خاطر کیجریوال کا ساتھ نہ دیتے ہوئے اپنے ووٹوں کا غلط استعمال کیا تو یہ احسان فراموشی ہوگی اور ہمیں یقین ہے کہ دہلی کی عوام احسان فراموش نہیں ہے وہ کیجریوال کے احسانوں کا بدلہ احسان مندی سے دیں گے۔ کیجریوال کا ساتھ دینے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آئندہ پانچ سال تک دہلی کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میںمزیداضافہ ہوگا اور دوسری طرف فرقہ پرستوں کے منصوبے ناکام ہو جائیں گے جو یہ چاہتے ہیں کہ عوام اپنی روز مرہ کی ضروریات اور تکالیف کو بھول کر صرف فرقہ پرستی میں الجھ  کر رہ جائیں ۔ہماری دہلی کی عوام سے پُر خلوص اور ادباً گزارش ہے کہ وہ اپنے ایک ایک ووٹ سے با شعور ہونے کا ثبوت دیں اور عاپ پارٹی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو ووٹ ڈال کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پھر کوئی سیاسی رہنما کیجریوال بننے کی کوشش نہیں کرے گا، سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو یہ پیغام جائیگا کہ عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کے بعد بھی لوگوں نے کیجریوال کو مسترد کردیا اس لئے بہتر یہی ہے کہ حسب روایت جب تک اقتدار میں ہیں اقتدار کے مزے لوٹے جائیں، سیاست کو جائز ناجائز دولت کمانے کا ذریعہ بنایا جائے ،عوام جائیں بھاڑ میں۔(یو این این)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا