یاجوج ماجوج

0
0

ہلال احمد شاہ(لنگیٹ ہندوارہ کشمیر)                                                       موبائل نمبر:7006557087               رات کے اندھیری میں، وہ اُن کو پہچان ہی نہیں پائے، کون دروازے پر دستک دے کر ان کو فریب دے گیا۔ اتنا ضرور یاد ہے کہ انھوں نے دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے انھیں عمرو کہہ کے پکارا۔ وہ سمجھا کوئی ہمسایہ اتنی رات گئے کسی ضرورت کے لئے انھیں آواز دے رہا ہوگا۔ اکرم کے منع کرنے کے باوجود عمرو نے دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھولتے ہی کئی آدمیوں نے عمرو کو دبوچ لیا ۔ اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔ دروازے پر کھڑی گاڑی میں ڈال دیا۔ عمرو کا باپ اکرم اور ماں گل پری مدد کے لئے چلاتے رہے مگر خوف کے مارے کوئی گھر سے باہر نہیں نکلا۔ کیوں کہ بستی کے ہر دروازے پر ظالموںکے پہرے دار بیٹھے تھے۔ عمرو کے باپ اور ماں کو بُری طرح زدکوب کیا گیا،ان پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ تمام رات نالہ و فریاد میں گزری۔ رُو رُو کے ان پر سکتا طاری ہوگیا۔ ان کے دل میں ہزاروں وسوسے اُبھرنے لگے، عمرو کا خوبصورت چہرہ بار بار ان کی آنکھوں میں پھرنے لگا۔نہ جانے یہ ظالم عمرو کے ساتھ کیا سلوک کریںگے، یہ خیال آتے ہی ان کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔  صبح صادق کے وقت ہمسایہ ان کے گھر چلے آیئے ، وہ عمرو کے اس طرح نامعلوم افراد کے ہاتھوں گرفتاری پر افسردہ تھے ۔غالب چچا جو اس علاقے کے بزرگ شخص تھے وہ لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ وہاںپہنچ گے اور تڑپ کر بولے ہائے اکرم کا گھر بے چراغ ہوگیا۔اتنے میں کچھ نوجوان اکھٹے ہوئے اور کہنے لگے کہ والدین نے محنت ومزدوری کر کے بڑی مشکل سے پڑھایا تھا،ہائے افسوس یہ کیا ہوگیا۔ ان کی ماں بال نوچنے لگیں، باپ دیوانہ وار صحن میں پھر نے لگا۔ ان کے ہم جولی روتے روتے کہنے لگے کہ ہمیں کون دے گیا جل۔ محلے کی بزرگ عورتیں بین کرنے لگیں ۔ غرض سارا گائوں ماتم کدہ تھا۔ یہ خبر سارے علاقے میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ اکرم کے اکلوتے بیٹے کو کسی نے اُٹھالیا۔ گائوں کے کچھ باشعور اور ذمہ دار اشخاص اس سوچ وفکر میں مبتلا تھے کہ آخر اب عمرو کو ڈھونڈے کہاں؟ اسی اثنا میں گائوں کا سرپنچ کبیر خاں آگیا۔ کبیر خاں سے جب پوچھا گیا کہ کیاکیا جائے ، تو انھوں نے کہا کہ یاجوج ماجوج کے قلعہ میں رپورٹ لکھوایا جائے۔ اکرم نے قلعہ میں جاکے رپورٹ لکھوائی۔ قلعہ کے اندر تعینات مکار لہو کے پیاسے داروغہ نے اکرم کو ،بیٹے کی بازیابی کی یقیں دہانی کرائی۔ اب وہ ہر روز قلعہ میں جاکے معلوم کرتا ہے کہ کیا میرے عمرو کا کچھ سراغ ملا،لیکن ہر وقت جواب نہیں میں ملتا تھا، تو مایوس ہو کر دبے قدموں گھر لوٹ جاتا تھا۔ کئی مہینوں سے جب وہ ہار کے بیٹھے تو دل میں سوجھی کہ یاجوج ماجوج کے سردار سے فریاد کروں۔ لیکن سردار تک رسائی اس کے لئے نا ممکن تھی۔ اس نے قلعہ میں جا کے ایک داروغہ سے بات کی ۔ داروغہ نے اس سے بیس ہزار روپے کی مانگ کی۔ اس نے داروغہ کے سامنے بڑی منتیںکی،لیکن اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بے بس ہوکے اکرم نے بیوی کے زیورات بھیچ دیے اور اس طرح داروغہ کو پیسے دیے۔ اگلے روز داروغہ نے اکرم کو سردار سے ملایا۔ اکرم نے سردار کو اپنی دکھ بھری کہانی سنائی ۔ سردار کے سامنے اکرم نے بڑی عاجزی وانکسار ی سے منتیں کیں، اس کے پیر تک دبائے تب کہیں جا کے بڑی مشکل سے یخ پگھلنے لگا۔ سردار نے قلعہ کے انچارچ داروغہ سے فون پربات کی کہ فلاں شخص کا بیٹا کس کی تحویل میں ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ یاجوج ماجوج کی ذبح مار کمپنی کی تحویل میں ہے۔ یہ سُن کر سردار سمجھ گیا کہ معاملہ گڑبڑہے۔ اس نے اکرم کو جھوٹی تسلی دے کر روانہ کیا۔دوسرے دن اکرم علی الصباح گائوں کے سرپنج کے ساتھ یاجوج ماجوج کے ذبح مار کمپنی کے قلعہ گیا۔اس کو بڑی مشکل سے قلعہ میں اندر جانے کی اجازت ملی ۔ قلعہ میں داخل ہونے کے بعد اکرم نے اپنا معاملہ قلعہ کے انچارچ داروغہ کے سامنے رکھا، توقلعہ کے انچارچ داروغہ نے ایک بڑی فائل نکال کراس میں تحریر کردہ احکامات پڑھے اور سب کی زباں کو مقفل کر دیا کہ عمروکو موت کی سزا سُنائی گئی ہے ۔ کیوں کہ عمرو کا کہنا ہے کہ انسان پر انسان کا لہو حرام ہے اور آزاد رہنا انسان کا بنیادی حق ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا