ترتیب: عبدالعزیز
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام خوبیوں کا مرقع تھے۔ حلم و بردباری، صبر و استقامت، عفو و درگزر، جرأت و صلابت، جود و سخا، ذہانت و ذکا اور سخت اشتعال انگیز صورت حال میں اپنے مقام رفیع کے مطابق تحمل و برداشت جیسی خصوصیات آپؐ ہی کی جامع شخصیت میں نظر آسکتی ہیں۔ آپؐ کی زندگی میں حدیبیہ کا معاہدہ ایک بہت ہی اہم اور نازک مرحلہ تھا۔ معاہدے کی شرائط بظاہر کفار کے حق میں اور اہل اسلام کے خلاف نظر آتی تھیں۔ وہیں سے عمرہ کئے بغیر واپس چلے جانا بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل کو ناگوار گزر رہا تھا مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات تو یہ تھی کہ ابو جندل رضی اللہ عنہ جو مکہ میں قبول اسلام کی پاداش میں زنجیروں میں جکڑے گئے تھے، کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے حدیبیہ آپہنچے اور آپؐ کے قدموں میں گرگئے۔ اس وقت تک آپؐ معاہدہ کرچکے تھے جس کے مطابق مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ آنے والوں کو واپس بھیجنے کی شرط طے پاگئی تھی۔ ابو جندلؓ کو جب واپس بھیجا جارہا تھا تو صحابہؓ کے دلوں پر آرے چل رہے تھے مگر سوچئے کہ دشمنوں کی تکلیف پر بھی بے چین ہوجانے والے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی کیا کیفیت ہوگی۔ اس کے باوجود آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور اپنے جاں نثار ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اللہ کی حفاظت میں دے کر شفقت و پیار کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ یہ سب واقعات ہر صاحب علم کو تفصیلاً معلوم ہیں۔ اس طرح بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ مسلمانوں نے دب کر معاہدے کی شرائط مان لی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ’فتح مبین‘ قرار دیا تو واقعی یہ فتح مبین ثابت ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب قریش نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرکے آپؐ کی حیثیت اور اسلامی ریاست کے وجود کو عملاً تسلیم کرلیا۔ عرب کے اس معاشرے میں یہ بہت بڑی پیش رفت تھی۔ اسی طرح سے قریش نے جنگ بندی کا جو معاہدہ کیا تو اسلامی ریاست کو جزیرہ نمائے عرب میں اپنے سب سے بڑے دشمن کی طرف سے امن میسر آگیا۔ چنانچہ اس دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت کو مجتمع کیا اور اپنی ریاست کو مزید منظم اور مضبوط بنایا۔ اس طرح مدینہ میں کسی حد تک دشمن کے حملوں سے عام آبادی کو بھی امن و اطمینان نصیب ہوا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرد و نواح کے ملوک اور ان کے ذریعے ان کی اقوام کو اسلام کی دعوت کیلئے خطوط لکھے۔ آپؐ پوری بشریت کی طرف ہادی بناکر مبعوث کئے گئے تھے۔ اس عرصہ میں آپؐ نے اپنا عالمگیر فریضہ بطریق احسن ادا کیا۔ قریش اس سے قبل خود کو دین ابراہیم کا پیروکار اور بیت اللہ کا مجاور اور اجارہ دار سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اہل اسلام صابی (بے دین) تھے۔ اب رسمی طور پر ہی سہی اس معاہدے کے ذریعے انھوں نے مسلمانوں کو نہ صرف ایک سیاسی قوت تسلیم کرلیا بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی ان کے وجود کو ان معنوں میں تسلیم کرلیا کہ اگلے سال مسلمان اجتماعی طورپر خانہ کعبہ کا طواف کریں گے اور مناسک عمرہ ادا کریں گے۔ تین دن کا مکہ میں جو قیام رہے گا اس میں قریش اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جائیں گے۔ اس معاہدے نے یہ بات پورے عرب میں تمام لوگوں کے دلوں میں ثبت کردی کہ اگر مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بزور قوت نکالا گیا تھا تو قریش کو بھی اس معاہدے کی بدولت اپنے گھروں سے نکلتے ہی بنی۔ ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ پچھلے طویل عرصے میں جتنی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے اس سے کہیں زیادہ اب مختصر وقت میں اسلام کی طرف رجوع کرنے لگے تھے۔ کئی قبائل جو حالات کے انتظار میں تھے اب سنجیدگی سے اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرصے میں وہ فتوحات بھی حاصل کیں جن کے نتیجے میں اسلامی ریاست اور اس کے شہری طویل عرصے کی معاشی تنگی اور فقر و فاقہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ فتح کے یہ اثرات تو بالکل ظاہر تھے اور سب لوگوں کو نظر آرہے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی قدم قدم پر اللہ نے یہ ثابت کیا کہ کفار کی قوت زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور مسلمان سیاسی و عسکری میدان ہی میں نہیں فکری اور نظری میدان میں بھی مسلسل آگے بڑھتے چلے گئے۔ ایک مسئلہ جو مسلمانوں کیلئے خاصی پریشانی کا باعث بنا وہ ابو جندل رضی اللہ عنہ اور ان کی طرح دیگر مسلمان نوجوانوں کی مدینہ آمد پر پابندی تھی۔ قریش اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہے تھے لیکن یہی چیز ان کیلئے وبالِ جان بن گئی۔ ابو جندلؓ کو ان کے ساتھیوں نے بندی خانے سے نکال لیا اور یہ لوگ ایک پہاڑ پر مقیم ہوگئے۔ اسی طرح سے ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی مکہ کے باہر ڈیرے ڈال لئے۔ یہ مدینہ کے شہری نہیں تھے اس لئے ان کے کسی عمل کی ذمہ داری بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا ریاست مدینہ پر عاید نہیں ہوتی تھی۔ ان نوجوانوں کا وجود قریش کے تجارتی قافلوں کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گیا ؛ چنانچہ خود قریش نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرکے اس شرط کو ختم کروادیا اور یہ مسلمان باعزت اور آزادانہ مدینہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس شرط کی معاہدے میں شمولیت کو کافر اپنی بڑی کامیابی اور مسلمان اپنی ناکامی سمجھ رہے تھے مگر اب سب کو معلوم ہوا کہ یہ شرط عملاً اہل ایمان کے حق میں اور کفار کے خلاف تھی۔ فتح مبین کا فیصلہ خود خالق کائنات نے فرما دیا تھا۔ سب سے اہم بات اس وقت لوگوں کی سمجھ میں آئی جب مکہ سے مسلمان خواتین کسی نہ کسی طرح ہجرت کرکے مدینہ آپہنچیں۔ اس حوالے سے کئی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں مگر ہم اختصار کے ساتھ یہاں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ اللہ نے جسے ’فتح مبین‘ قرار دیا وہ واقعی کس قدر بڑی واضح فتح تھی۔ جب ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں تو ان کے بھائی صلح حدیبیہ کے معاہدے کو بنیاد بناکر انھیں واپس لینے کیلئے آگئے۔ سورۃ الممتحنہ اس عرصے میں نازل ہوچکی تھی اور اس میں ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین کو کافروں کے حوالے کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو؛ جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کرلو اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کیلئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کیلئے حلال۔ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیئے تھے وہ انھیں پھیر دو۔ اور ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کردو۔ اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے انھیں وہ واپس مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے‘‘۔ (سورۃ الممتحنہ، 10:60) اگر مسلمان انھیں یہ کہتے کہ ہمیں اللہ نے ان خواتین کو واپس کرنے سے روک دیا ہے تو کافروں کیلئے یہ دلیل کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی۔ اللہ رب العالمین نے سورۃ الفتح میں حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ قدم قدم پر اس سے فتوحات برآمد ہوتی چلی گئیں۔ آپؐ نے حضرت ام کلثومؓ کے برادران سے فرمایا کہ جس معاہدے کا تم حوالہ دے رہے ہو، اس میں مردوں کا ذکر تو ہے، تمہارے سفیر نے عورتوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ جب معاہدے کے الفاظ دیکھے گئے تو اس میں مرد تو مذکور تھے، عورتیں نہیں۔ آپؐ نے معاہدے کے الفاظ دہراتے ہوئے فرمایا: کان الشرط فی الرجال دون النساء یعنی شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں۔ پس سردارانِ قریش ناکام ہوئے اور فتح مبین یہاں بھی ظاہر ہوئی۔ حدیبیہ کا صلح نامہ طے ہونے کے بعد جب لکھا جارہا تھا تو اس وقت بھی بڑا دلچسپ بحث و مباحثہ ہوا اور بڑی رد و کد ہوتی رہی۔ زبانی طور پر شرائط طے ہوجانے کے بعد جب معاہدہ تحریری شکل میں کاغذ پر منتقل کرنے کا مرحلہ آیا تو سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوا کہ کون لکھے۔ یہ کوئی اہم بات نہیں تھی؛ البتہ سہیل بن عمرو نے کہاکہ اس معاہدے کو علی بن ابی طالب لکھے یا عثمان بن عفان۔ یہ دونوں صحابہؓ لکھنے پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ انھوں نے معاہدے کے آغاز میں ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ لکھا تو سہیل بن عمرو نے رحمان کے لفظ پر اعتراض کیا۔ قریش کے لوگ اللہ کے صفاتی نام ’رحمن‘ کو نہ جانتے تھے نہ مانتے تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: ’’ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیابس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کردیتی ہے‘‘۔ (الفرقان 60:25) مسلمانوں کو سہیل کے اس اعتراض پر بڑا تعجب بھی ہوا اور غصہ بھی آیامگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے پوچھا کہ کیا لکھا جائے تو اس نے کہا: بِسْمِکَ اَللّٰہُمَّ (اے اللہ تیرے نام سے ہم آغاز کر رہے ہیں) لکھیں۔ چنانچہ یہی الفاظ لکھے گئے۔ اسی طرح جب یہ لکھا گیا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پایا ہے تو سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا کہ ہم تو ان کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ اصولی طور پر اس کی بات درست تھی کیونکہ اگر وہ آپؐ کو رسول اللہ مان لیتے تو جھگڑا کاہے کو ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کیلئے بڑا مشکل تھا کہ وہ اپنے قلم سے رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیں۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قلم پکڑ کر ان الفاظ پر پھیر دیا اور فرمایا کہ لکھو؛ یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور قریش کے درمیان طے پایا ہے۔ اللہ رب العالمین نے اس پورے واقعہ اور معاہدہ کا تذکرہ کرنے کے بعد خود اپنی گواہی اور شہادت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ محمد رسول اللہ اور و کفٰی باللہ شہیداً۔ سورۃ الفتح میں نہ صرف آنحضورؐ کی رسالت پر اللہ نے شہادت دی ہے بلکہ آپؐ کے جاں نثار صحابہؓ کی بھی تعریف و تائید کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین واقعی سیرتِ رسولؐ کا عکس تھے۔ ہمارے لئے بھی وہی روشنی کے مینار ہیں۔ آج ہم فتح مبین کے متمنی تو ہیں مگر نہ وہ ایمان و ایقان ہے، نہ وہ اخلاص و اطاعت جو صحابہ کی پہچان تھی۔ پھر تمنا کیسے پوری ہو؟ اللہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی روشن زندگیوں کو اپنانے کی توفیق بخشے۔ (ماخوذ: گلدستہ سیرتِ مصطفی)