زمانہ قدیم میں اتنی زیادہ ابادی نہیں ہوتی تھی لوگ بڑے دور دور رہتے تھے۔ اور اکثر لوگ پانی کے نزدیک ہی بسا کرتے تھے. کیونکہ وہاں ساری چیزے اسانی سے دستیاب ہوتی تھی اور کھیتی باڑی کیلے زمین وہاں بڑی زرخیز ہوتی تھی۔ زیادہ تر لوگ قبیلوں میں رہا کرتے تھے۔ اور وہاں انکا پورا نظام اپنا ہوتا تھا۔ عدالتیں بھی اور قبیلے کا سردار بھی اور سب کچھ اپنا ہی ہوتا تھا۔ عدالت اپنا فیصلہ ہمیشہ اپنے لوگوں اور قبیلے کے سردار کی مرضی کے مطابق ہی کیا کرتی تھی ۔ تا کہ وہ ناراض نہ ہوں گویا عدالتوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا تھا کے لوگوں کو انصاف ملے بلکے یہ ہوتا تھا کےاپنے لوگ اور قبیلوں کے سردار ان سے خوش رہیں اور کوی بھی فیصلہ انکے خلاف نہ ہو۔قبیلے کے سردار بھی کبھی یہ نہ کہتے کے اس فیصلہ سے لوگوں کو انصاف نہیں ملا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے جو بھی قبیلے کے سردار کے غلط فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرتا اور عدالت ہمیشہ فیصلہ سردار کے حق میں ہی دیتی یعنی عدالت صرف براے نام ہی کی ہوتی تھی۔ بارہویں صدی کی بات ہے کے ایک بستی سے ایک طوطے اور مینا کا گزر ہوا۔ جس بستی سے وہ گزر رہے تھے وہ بستی ویران تھی اور اس میں وہاں کافی سارے کھنڈرات تھے وہاں وہ رکے اور چاروں طرف کھنڈرات دیکھنے کے بعد وہ اپس میں باتیں کرنے لگے اور طوطے نے مینا سے کہا کے لگتا ہے یہاں بھی کھبی کسی وقت کوہی بہت بڑی بستی ہسی ہے مینا نے کہا ہا لگتا تو ہے ۔الو نے کہا لیکن لگتا ہے کے یہاں الو بھت ہوے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ بستی غیر اباد ہوی ہے۔ کیوں کے الو جہا بستے ہیں وہ اس جگہ کو غیر اباد کر دیتے ہے۔ انکی یہ پوری بات پاس میں بھیٹے الو سن رہے تھے ۔ الوں کو یہ بات گوارہ نہ لگی تو انہوں نے ایک تدبیر بنای کے کیسے طوطے اور مینا کو یہ بات سمجھای جاے کے الو کے بسنے سے بستیاں غیراباد نہی ہوتی۔
رات کو طوطا اور مینا وہی رکے اور صبح جب وہ چلنے لگے تو ایک الو نے اگے بڑھ کے مینا کو پکڑ لیا اور کہنے لگا کے یہ میری بیوی ہے۔ طوطا بہت چیخا اور چلایا لیکن کسی نے نہی سنی مینا بھی زار و قطار رونے لگی لیکن کسی نے ایک نہ مانی۔ ۔ وہاں وہ یہ سب جانتے تھے لیکن کوہی کچھ نہیں بولا ۔جب طوطے کی ایک بھی نہ چلی تو تنگ آ کے اس نے یہ فیصلہ کیا کے وہ اس شہر کی عدالت میں جاے گا۔ اخرکار طوطا عدالت میں پہنچ گیا اور جج صاحب کے سامنے مقدمہ داعر کر دیا۔ طوطے نے بڑی امید سے پورا ماجرہ جج صاحب کے سامنے رکھا اور جب جج صاحب نے مینا سے پوچھا تو وہ بھی رورو کے کہنے لگی کے وہ طوطے کی ہی بیوی ہے اور الو نے اسے زبردستی پکڑا ہے۔ دوسری طرف الو سے جب پوچھا گیا تو اس نے بھی پورے زور شور سے اپنی بات گواہوں کے ساتھ رکھی۔
وہاں عدالت میں جب کاروای مکمل ہوی تو یہ فیصلہ ایا کے تمام گواہوں اور ثبوتوں کی پیشِ نظر عدالت اس فیصلے پے پہنچی ہے کے مینا الو کی ہی بیوی ہے اور طوطے کو ہدایت دی گی کے وہ آیندہ انسے دور رہے۔ یہ ایک بڑا عجیب کسم کا فیصلہ تھا طوطا اور مینا دونوں بہت پریشان تھے کے یہ کیا ہو گیا کیونکہ ان کے پاس اب کوہی بھی اور راستہ نہ تھا اور طوطے کو مینا الو کے پاس چھوڑ کے جانا تھا کیونکہ یہ عدالت کا حکم تھا۔ طوطا بڑا مایوس ہو کے عرالت سے باہر نکلا اور چلنا شروع کر دیا وہی دوسری طرف الو بھی مینا کو ساتھ لے کے عدالت سےبڑی خوشی سے باہر نکل کر اگیا۔ جب طوطا مایوس ہو کے عدالت سے باہر نکلا تو الو نے اسے بلایا اور مینا کو الو کے ہوالے کر دیا اور کہا بستی الو کے بسنے سے غیراباد نہیں ھوتی بلکے جب عدالتیں ایسے فیصلے دیتیں ہیں تو بستیاں غیراباد ھوتی ھیں۔
چوہدری ایاز احمد ہکلہ
8803197920