جموں و کشمیر کو تجربہ گاہ بنانے سے گریز کیا جائے

0
0

تمام سیاسی لیڈروںکو رہا کر کے عوام کے زخموںپر مرہم لگانے کی ضرورت :عاشق حسین خان
لازوال ڈیسک

جموں؍؍جموںو کشمیر کو تجربہ گاہ بنانے سے مرکزی سرکار گریز کرے ۔سابق سرکار وںکے تجربوںسے سبق سیکھ کر عوام کے اصل لیڈران کو رہا کر کے عوام کے زخموںپر مرہم لگانے کا کام سنججدگی سے کیا جائے ۔چلے ہوئے کارتوس کو آزمانے سے عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جانے کی اشد ضرورت ہے ۔ان باتوںکا اظہار شیعہ فیڈریشن جموںکے صدر عاشق حسین خان نے ایک پریس بیان میں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ سابق مرکزی سرکاروںنے اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر جموںو کشمیر کو ہمیشہ تجربہ گاہ بنائے رکھا جس سے جموں و کشمیرکے عوام کا بھلا ہو نے کی بجائے چند ہی لوگوں کا بھلا ہوا ۔کیونکہ سرکار وںمیںشفافیت نام کی نہ رہی اور حکمران اپنی من مانی کرتے رہے ۔آج کی مرکزی سرکار کے الزامات کہ سابق سرکاروںنے ریاستی عوام کی بھلائی کے لئے مرکزسے ملنے والے وافر مقدار کے فنڈز کا غلط استعمال کیا میںکوئی دروغ گوئی نہ ہے ۔عاشق حسین نے کہا کہ اب ایک بار پھر سے مرکزی سرکار جموں و کشمیر میںایک اور تجربہ کرنے کی جانب گامزن ہے ،جس سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیںہے ۔خان نے کہا کہ 5اگست 2019کے بعد جموںو کشمیر کے عوام کو لا تلافی نقصان پہنچا ہے ۔یہاں کے مزدور سے لے کر بڑے سے بڑے تاجر کا بھی برا حال ہے ۔خان نے کہا کہ ان چھ ماہ کے دوران ریاست کی اکنامی کو ہزاروں کروڑوںکا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔جس میںسیب کی صنعت ،سیاحت ،تجارتی اداروں،ہوٹل و ریسٹورنٹس مالکان ،یہاںکی ثقافت ،قالین بانی ،نمدے و گبھے بنانے والوں،مزدوروں،ٹرانسپورٹرز ،تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات ،بیرونی ریاست تجارت کی غرض سے جانے والے کاروباریوں،انڈسٹری ،مذہبی مقامات پر عقیدت کے پھول نذر کرنے والے یاتریوںاور زائرین ،ٹھیکیداروںغرض ہر کوئی مرکزی اقدام کے بعد متاثر ہو ا ہے ۔خان نے کہا کہ 30سال کے پر آشوب دور سے پہلے ہی جمو ں و کشمیر کے لوگوںکی معاشی حالت خستہ ہو گئی تھی لیکن پانچ اگست کے بعد ہر شعبہ کی رہی سہی کسر نکل گئی ۔گویا جموںو کشمیر کے عوام اس وقت پُر اشوب دور سے گذر رہے ہیں۔اسلئے ضرورت ہے عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کی ،جس کے لئے عوام کے اصل نمائندے فٹ بیٹھیںگے ۔ان کا کہنا تھا کہ مرکزی سرکار جو تجربہ کر نے کے لئے پر تول رہی ہے ،اس سے عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے اور بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔کیونکہ ان لوگوںکے ماضی کو نزدیک سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جموںو کشمیر کے عوام ایسے لوگوںکو اپنے نمائندے کے طور پر تسلیم کریںگے ۔ایسا ممکن نہیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔خان نے کہا کہ اصولوںسے سمجھوتہ کرنے والوںسے کوئی توقع نہیںکی جا سکتی ہے ۔ایسے لوگوںکو عوام نے نزدیک سے دیکھا اور پرکھا ہے ۔اس لئے ایسے لوگوںکو عوام کی تقدیر بدلنے کا ذمہ نہیںدیا جا سکتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام جن کو فوری طور پر راحت کی اشد ضرورت ہے کا ذمہ ان کے اصل نمائندوںکے سپرد کیا جائے ۔اس کے لئے مرکزی سرکار کا پہلے سیاسی قائدین کو رہا کرنے کی ضرورت ہے ۔سیاسی خلاء کو پر کرنے کے لئے ان لیڈران کو عوام کے درمیان جانے کا موقعہ دیا جائے تاکہ مرکزی سرکار کو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ لوگ عوام کو ابھی پسند ہیںیا نہیں۔اگر ایک بار پھر اوپر سے لیڈروںکو تھوپنے کی کوشش کی جائے یا برائے نام الیکشن کراکر ایسے لوگوں کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جائے تو بات بننے کی بجائے اور بگڑ سکتی ہے ۔خان نے کہا کہ اس حساس جموںو کشمیر کے عوام کو دلوںکو جیتنے کے لئے ان کو ان کی مرضی کی سرکار دینے کے لئے ایماندارانہ اور خلوص نیت سے صاف و شفاف فیصلے کئے جائیںتاکہ عوام کو اس بات کا احساس ہو کہ مرکزی سرکار ان کی بھلائی کی خواہاںہے ۔کیونکہ زور و زبردستی اور پچھلے دروازے سے جو بھی جموں و کشمیر میںکیا جاتا رہا اس کے منفی اثرات ہی اب تک برآمد ہو ئے ہیں۔اسی لئے عوام کے جذبات اور ان کی توقعات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا