کشمیر میں انٹر نیٹ کی مکمل بحالی پر ابہام برقرار

0
0

سیاہ فہرست والی ویب سائٹوں کی فہرست تیار
سوشل میڈیا تک رسائی کو روکنے کیلئے’ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک‘ کو بند کرنے کا فیصلہ
کے این ایس

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں طویل ترین عرصے سے جاری’ انٹر نیٹ کرفیو‘کے باعث انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا ہے ۔اگرچہ انٹر نیٹ سروس کو محدود اور مشروط بنیادوں پر بحال کیا گیا ہے ،تاہم عوام اس اقدام کو مذاق سے تعبیر کررہے ہیں ۔شدید تنقید کے بعد حکام نے کشمیر میں انٹر نیٹ کی مکمل بحالی کا منصوبہ ترتیب دیا ہے ،تاہم اس پر ابہام ابھی بھی برقرار ہے ۔حکام نے انٹر نیٹ کی مکمل بحالی سے قبل (بلیک لسٹڈ) یعنی سیاہ فہرست والی ویب سائٹوں کی فہرست تیار کرلی ہے ،جو عنقر یب مشتہر کی جائیگی ،جن ویب سائٹوں تک عام صارفین کی رسائی ہوگی ،اُنہیں (وائٹ لسٹڈ) یعنی سفید فہرست والی ویب سائٹس قرار دیا گیا ہے ۔علاوہ ازیں سوشل میڈیا تک صارفین کی رسائی کو روکنے کیلئے ’ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ‘(وی پی این ) کو مکمل طور (بلاک)بند کرنے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے۔اس دوران سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک بحث بھی شروع ہوگئی ہے اور نوجوان پود سوشل میڈیا تک رسائی کیلئے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی تگدو بھی کررہی ہے ۔کشمیر نیوز سروس(کے این ایس ) کے مطابق 5اگست 2019کو کشمیر میں انٹر نیٹ کرفیو نافذ ہوا ،اگرچہ پابندیوں کو محدود حد تک ہٹایا گیا ،تاہم مجموعی طور پر کشمیر میں انٹر نیٹ کرفیو تاحال جاری ہے ۔حالیہ دنوں حکام نے ایک غیر معمولی فیصلے اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی ہدایت پر موبائیل انٹر نیٹ خدمات2۔جی رفتار کیساتھ بحال کردیں ،تاہم صارفین کی جانب سے جموں وکشمیر کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا ہے ۔صارفین نے حکومتی فیصلے کو مذاق اور درد سر سے تعبیر کیا ۔شدید تنقید کے بعد حکام نے وادی کشمیر میں انٹر نیٹ کی مکمل بحالی کا منصوبہ بنایا ہے ۔اس سلسلے میں کئی سطحوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں :انٹر نیٹ کی مکمل بحالی کا منصوبہ: انٹرنیت کی جزوی اور مشروط بحالی سے قبل حکام نے ایک لسٹ جاری کی جس میں وہ ویب سائٹس شامل ہیں جن تک رسائی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس فہرست کو وائٹ لسٹ کہا گیا ہے جبکہ اس سے باہر رہنے والی سبھی ویب سائٹس بلیک لسٹ میں رکھی گئی ہیں۔ حکام کیلئے یہ صورت حال مضحکہ خیز بن گئی ہے کیونکہ دنیا میں کروڑوں ویب سائٹس ہیں اور محض چند درجن ویب سائٹس کو وائٹ لسٹ میں شامل کرکے انٹرنیٹ کی بحالی کا دعوی ہدف تنقید بن رہا ہے۔ حکام اب سوچ رہے ہیں کہ وائٹ لسٹ کے بجائے بلیک لسٹ جاری کی جائے تاکہ پیدا شدہ ہزیمت کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکے۔ذرائع کے مطابق ، حکومت ویب سائٹوں کی ایک فہرست تیار کررہی ہے جس پر خطے میں فل اسپیڈ انٹرنیٹ کے دوبارہ آغاز کے باوجود پابندی عائد رہے گی۔ذرائع نے بتایا کہ کچھ ایسی سائٹیں ہیں، جن پر پابندی عائد رہنے کا امکان ہے جن میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے ،وٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ شامل ہیں۔اس کی تصدیق کرتے ہوئے ، ایک ٹیلی کام کمپنی کے ایک ملازم اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعوی کیا کہ اب براڈ بینڈ اور لیز لائنوں سمیت باقی سروسز کو کسی بھی وقت بحال کردیا جائے گا لیکن مکمل بحالی کے باوجود ، کچھ سائٹیں ایسی ہوں گی جو ناقابل رسائی رہیں گی۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر آفیسر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس صحافیوں، تاجر، طلبا اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کی جانب سے شکایتیں موصول ہو رہی ہیں کہ سست رفتار انٹرنیٹ اور وائٹ لسٹ میں ضروری ویب سائٹ شامل نہ ہونے کی وجہ سے صارفین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ویب سائٹس کی تعداد تقریبا لامحدود ہے اور اطلاعات پر سب کا برابر حق ہے۔ اس لیے انتظامیہ وائٹ لسٹ کی جگہ اب ویب سائٹس کو بلیک لسٹ کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ویب سایٹ کو بلیک لسٹ کرنے سے انتظامیہ کے لیے بھی کافی آسانی رہے گی۔ پہلے مرحلے میں400سے500ویب سائٹس بلیک لسٹ کی جائیںگی ،ان میں سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی شامل ہونگی۔ بعد میں اگر کسی ویب سایٹ کے خلاف غلط خبروں کی تشہیر کرنے یا قوانین کی خلاف ورزی کی شکایت موصول ہوئی تو اس کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ موبائل صارفین کی دوبارہ سے جانچ پڑتال کی خبروں کے تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ پری ۔پیڈ موبائل صارفین کی فزیکل ویری فیکیشن یعنی جانچ نہیں ہوتی ہے، اس لیے موبائل کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ پوسٹ۔ پیڈ صارفین کی طرز پر ہی پری۔ پیڈ موبائل صارفین کی جانچ پڑتال کریں، اس سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ حکومت نے تقریبا 6 ماہ مکمل بلیک آوٹ کے بعد25جنوری کو سبھی22اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز محدود اور مشروط طور پر بحال کیں۔ تاہم صارفین کی رسائی صرف 300کے قریب ویب سائٹوں تک ہی محدود تھی ، جسے انتظامیہ نے’وائٹ لسٹڈ‘سائٹس سے تعبیر کیا۔ وائٹ لسٹ یو آر ایل میں سرکاری سائٹیں ، ای میل اور دیگر یوٹیلیٹی سائٹ شامل ہیں۔حکومت کی اپنی سائٹوں سمیت متعدد سائٹیں لوگوں کے لئے نہیں ہیں۔ چونکہ سروسز2۔جی تک محدود ہیں جس کی وجہ سے سرفنگ اور بھی دشوار ہوجاتی ہے۔سوشل میڈیا پر پابندی اوروی پی این : صارفین کی سوشل میڈ یا تک رسائی کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ کشمیر میں انٹرنیٹ سے چند روز قبل جزوی طور پر پابندیاں تو اٹھائیں لیکن سوشل میڈیا بدستور بند ہے، اور صرف محدود سست رفتار2جی موبائل انٹرنیٹ چل رہا ہے۔تاہم سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے کیلئے نوجوان نسل نے ٹیکنالوجی کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی کا ’فار مولہ ‘ بھی تلاش کیا ۔کئی نوجوان صارفین سوشل میڈیا پر نظر آئے اور ساتھ ہی وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کا ذکر بھی ہونے لگا۔وی پی این کے ذریعے صارفین سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کر تے ہیں ۔چنانچہ سوشل میڈ یا تک رسائی کو روکنے کیلئے حکام نے اس کا توڑ بھی تلاش کرنا شروع کردیا ۔اب وی پی این کو بھی مکمل طور ’بلاک ‘ یعنی بند کرنے کا فیصلہ لیا گیاہے ۔وی پی این ہوتا کیا ہے؟:وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک ایک ایسا ’سافٹ ویئر ‘ہے جو کہ موبائیل ڈیوائس اور کسی دوسرے کمپیوٹر کے درمیان انٹرنیٹ کے ذریعے ایک محفوظ کنکشن قائم رکھتا ہے۔عام طور پر جب ہم انٹرنیٹ پر جاتے ہیں تو ہماری ڈیوائس ہمارے انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر یعنی آئی ایس پی کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ جب آپ وی پی این استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے آئی ایس پی کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آپ کون سی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔وی پی این سروسز عموماً دفاتر کے باہر سے آفس کے کمپیوٹر سسٹمز تک رسائی حاصل کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں لیکن انہیں حکومتی’ سینسرشپ ‘کی وجہ سے بعض ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔بعض ویب سائٹس کو مارکیٹ میں دستیاب جن وی پی اینز کا علم ہوتا ہے وہ انھیں بلاک کر دیتی ہیں لیکن نئے وی پی این نیٹ ورک اکثر بنتے رہتے ہیں۔یاد رہے کہ5اگست کو کشمیر میں دوسری مواصلاتی سروسز کے ساتھ انٹرنیٹ سروسز منقطع کردی گئی تھیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا