مسلم دلت آکروش

0
0

حنیف ترین
ہمارے دور نے چیخ اور پکار دیکھی ہے
لباسِ امن میں دہشت کی مار دیکھی ہے
سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اب تیسرے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ قوم کی عورتوں نے اسے ایک نئی جہت عطا کردی ہے۔یوں دیکھا جائے تو طلبہ نے اس احتجاج کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی تھی جس کاسلسلہ ملک بھرکی یونیورسٹیوں وکالجوں میں پہنچ گیا۔ البتہ حکومت نے پولیس کااستعمال کرکے عام لوگوں خاص کرنوجوانوں کی ہمت توڑنے کیلئے دودرجن نوجوانوں کو یوپی کے مختلف اضلاع میں درانِ احتجاج گولی مار کر موت کی نیند سلادیا ۔جے این یو میںنقاب پوش غنڈوں کے ذریعہ طلبہ اور پروفیسروں جن میں عورتیں بھی تھیں، حملہ کیاگیا، جس میں کئی طلبہ کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے توبہت سوں کے سروں میں کافی چوٹیں آئیں۔اس حملے میں طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش بھی زخمی ہوئیں ۔ان کے ماتھے پر7انچ لمبا اورڈھائی انچ گہرا زخم آگیاتھا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پرتشددکے بعد پہلے شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کا مورچہ سنبھالا اور اب عالم یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں عورتیں گھروں سے نکل پڑی ہیں اور انھوں نے شاہین باغ جیسے دھرنے شروع کردئیے ہیں،جس سے حکومت کے ہوش اڑگئے ہیں کیوں کہ ان دھرنوں میں تمام مذاہب کے لوگ شریک ہورہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اب دلت ایک بڑی تعداد میں اس قانون کی مخالفت میں سامنے آگئے ہیں۔ سی اے اے کے خلاف باباصاحب امبیڈکر کے پوتے جناب پرکاش امبیڈکر نے 24جنوری کومہاراشٹربندکی کال دی تھی جوبہت کامیاب رہی تھی۔ اس سے پہلے بھی وہ ممبئی میںایک زبردست احتجاج کرچکے ہیں۔ 17جنوری کو دلتوں کے ایک ابھرتے ہوئے لیڈرچندرشیکھر آزاد عرف راون جیل سے رہاہونے کے بعد دوبارہ جامع مسجد دہلی گئے اوروہاں ان کازبردست استقبال کیا گیا۔ بہت سے مسلم نوجوان ان کے بڑے بڑے فوٹوز ہاتھوں میںلیے ہوئے تھے جہاں پر انھوں نے آئین کے وہ حصے پڑھے جن میں شخصی آزادی اور مذہبی آزادی کا ذکر تھا۔ بھیم آرمی کے سربراہ نے وہاں پر سیکڑوں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس لیے گرفتار کیاگیا کیوں کہ میں نے یہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر آئین پڑھا تھا لیکن پولیس نے کورٹ میں کہا کہ میں نے اشتعال دلانے والی تقریرکی تھی۔ اگر آئین پڑھنا اشتعال انگیز تقریر ہے تو ایسی تقریر میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔میرے لیے آئین ایک مقدس کتاب ہے اور ہم آئین سے جڑے ہوئے ہیں لہٰذا ہم (دلت) سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کی مخالفت میں اب اور زوردار طریقے سے لگیں گے۔
چندرشیکھر کی ضمانت دیتے ہوئے کورٹ نے انھیں حکم دیاتھا کہ ایک مہینے تک وہ متنازعہ قانون کے خلاف ہونے والی ریلیوں میں شرکت نہیں کریں گے ۔حتیٰ کہ وہ شاہین باغ بھی نہیں جائیں گے حالانکہ بعد میں انھیں عدالت نے جامعہ اور شاہین باغ میں جانے کی اجازت دے دی۔متنازع قانون کے خلاف جاری احتجاج کو بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر نے ایک نئی جہت دی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہرجگہ وہ دلت اوران اقلیتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں جن پر حکومت کسی بھی طرح کی ظلم کررہی ہے۔دوسری طرف مغربی یوپی کے دلتوں کاایک بڑاطبقہ بھی اس تحریک سے جڑ گیا ہے۔اونا سانحہ جس میں کئی دلتوں کو ننگا کرکے چوراہے پر باندھ کر سب کے سامنے مارپیٹ کرتے ہوئے اس واقعہ کی ویڈیو بناکر وائرل کی تھی، مسلمانوں نے اس واقعہ میں دلتوں کا پورے ملک میں ساتھ دیاتھا۔اسی واقعہ کا نتیجہ تھا کہ پچھلے مہاراشٹر کے الیکشن میں ایم آئی ایم اور وہاں کے دلت لیڈر پرکاش امبیڈکر (بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے پوتے) کے درمیان اتحاد ہواتھا۔
چندر شیکھر آزاد کا جس طرح جامع مسجد،جامعہ ملیہ اورشاہین باغ میں شاندار استقبال ہوا، وہ ہمارے سماج میں آرہی زبردست تبدیلیوں کاآئینہ دار ہے۔ شاہین باغ میں چندرشیکھر نے اپنی تقریر میں مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان گہرے ہورہے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب دلت اورمسلم دوستی پکی ہے۔ اس سے پہلے امبیڈکر اورپھر کانشی رام کی محنت سے دلت اور مسلم اتحاد ہوا تھا جس پر مسلم اشرافیہ کے علاوہ، تمام مسلمان اوردلت بہت بھروسہ کرتے تھے۔ اسی کے نتیجے میں بہن جی کئی بار یوپی کی وزیراعلیٰ بنیں مگر انھوں نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا۔ ان کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا، سوائے مڈل کلاس کے مسلمانوں کو ایم ایل ے اور ایم پی کے ٹکٹ دینے کے۔ ان میں سے جو بھی جیتے وہ 90فیصدقوم کی بہتری کے کام نہ آسکے۔ آج حالت یہ ہے کہ مایاوتی بی جے پی کاہم نوامعلوم ہوتی ہیں۔ انھوں نے اب تک یوپی میں کوئی بڑا احتجاج تک نہیں کیا بلکہ یوپی میں جن مسلمان نوجوانوںنے سی اے اے اوراین آرسی کے خلاف اپنی قربانی دی، ان تلک کے لیے کوئی احتجاج نہیں کیا، نہ ہی ان کے اہل خانہ کو کوئی مدد پہنچائی۔حد تو یہ ہے کہ محترمہ نے تین طلاق بل کی راجیہ سبھا میںحمایت کی اورامروہہ کے ایم پی کنوردانش علی نے جب اس بل کی مخالفت کی تو محترمہ نے ان سے راجیہ سبھا کی لیڈرشپ تک چھین لی۔یہ ہے مایاوتی کا اصلی چہرہ۔ وہ اب بہوجن سماج کی لیڈرنہ رہتے ہوئے خودکو سروجن سماج کا نیتاسمجھنے لگی ہیں۔ کیا مسلمانوں کی آنکھیں، کان اور دماغ بند ہیں جو انھیں نہیں سمجھ پائیں گے۔اب یہ بات تقریباًطے ہے کہ مسلمان مایاوتی کو پہلے کی طرح ووٹ نہیں دیں گے اور سروجن سماج کی لیڈربہن جی مایاوتی کو آنے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی حیثیت کا پورا اندازبھی ہوجائے گا۔
لے دے کے اس وقت بڑے دلت رہنماؤں میں ایک وامن میشرم بچتے ہیں جو مسلم -دلت اتحادکے لیے برسوں سے کوشاں ہیں جیسا کہ کئی اخباروں میں ان کی دلت سماج کے لیے کی گئی خدمات اور ان کی دانشورانہ صلاحیتوں کے بارے میں شائع ہواہے۔ وہ ایک عالمی سطح پر جانے مانے دلت دانشورہیں مگر وہ آج کی سیاست سے ناواقف بھی ہیںاورکسی دلت گروپ کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ اگرانھیں چندر شیکھر آزاد جیسے لوگ اپنی پارٹی سے جوڑلیںتودلت اور پسماندہ طبقات حکومت میں اپنی زیادہ سے زیادہ حصے داری پانے میںکامیاب ہوسکتے ہیں، مگریہ تبھی ممکن ہے جب بکھری ہوئی تمام دلت پارٹیاں اکٹھی ہوجائیں اورمسلمان انھیں سپورٹ کریں۔
ویسے آج جو سی اے اے اور این آرسی کے خلاف انقلابی جدوجہد پورے ملک میں چل رہی ہے، یہ یوں ہی چلتی رہی اور اس میں پچھڑی تمام ذاتیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوںتو آنے والے دنوں میں غیر معمولی سیاسی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے مگراس کے لیے ہمیں بھی ہرطرح کی کوششیں کرنی ہوںگی۔ بی جے پی کے لوگ مسلمانوں کا اس قدرصبرآزمارہے ہیں کہ کتاب بن جائے۔ آدتیہ ناتھ کایہ کہنا کہ مسلمان گھروں میں لحاف اوڑھے سو رہے ہیں اور انھوںنے اپنی بیویوں کو آگے کردیا ہے اور احتجاج کروا رہے ہیں،بھارتیہ جنتاپارٹی کی بدزبانی کاپتہ دینے کیلئے کافی ہے۔ مودی جی اوریوگی کو کیا معلوم کہ صرف جسمانی بناوٹ اورکام کی بنیادپران میں فرق ضرور ہے مگرعورت اورمرد دونوں برابرہیں۔ دوسری بات یہ کہ ’بندرکیاجانے ادرک کا سواد۔‘عورت کے پیچھے اس کی حفاظت کیلئے شیردل مرد کھڑاہواہے۔ اس کے دائیں ہاتھ میںامبیڈکر کی تصویرہے تواس کابایاں ہاتھ اپنے بیٹے کے گلے میں ہے۔ایک طرف ہندوستانی جھنڈا لیے اس کی بیٹی کھڑی ہے تو دوسری طرف گاندھی جی کی تصویرلیے پچھلے ایک مہینے سے زیادہ احتجاج پر بیٹھی ہوئی اس کی بیوی ہے۔ شاید مظفرنگرکے سنجیوبالیان کویہ بات پتہ نہیں کہ شاہین باغ میں نہ صرف ’ہون‘ ہوتا ہے بلکہ گاندھی جی اور امبیڈکر کی آرتی بھی اُتاری جاتی ہے۔ اس سے تھوڑا پیچھے قرآن اور نماز بھی پڑھی جاتی ہے توتھوڑا ساآگے گرونانک جی کا پاٹھ بھی چلتاہے اوروہیں پرکچھ فاصلے پر ڈکٹیٹروں سے، نسل واد سے آزادی کے نعرے بھی لگتے ہیں۔
اب احتجاجات جو پورے ملک میں پھیل چکے ہیں، انھیں ختم کرنے کے لیے خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہاہے۔ لکھنؤ، فیروزآباد اورکئی اورجگہ پولیس نے عورتوں پرلاٹھی چارج کیا جس کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے۔ جے این یو پرنقاب پوشوں کاحملہ، دہلی میں خاص طور سے شاہین باغ کااحتجاج ختم کرنے کے لیے پوری دہلی میں این ایس اے لگانا تاکہ ان لوگوں کو گرفتارکیاجاسکے جواحتجاج میں پیش پیش ہیں، جوپنجاب سے سکھ بھائی اس احتجاج میں شامل ہیں ان کے لنگر کاسارا سامان اور وہ ٹینٹ ضبط کرلینا ،کیا بتلاتا ہے؟
دراصل یہ فاشزم (آرایس ایس) اورسیکولرزم کاسب سے بڑامعرکہ ہے۔ فاششٹ اگراس قانون کونافذکرانے میں کامیاب ہوگئے تو ایک لمبی مدت تک وہ حکومت پر قابض رہ کر نہ صرف اقلیتوں کوستائیں گے بلکہ ملک کے آئین کو پوری طرح بدل دیں گے اور نئے سرے سے تاریخ لکھی جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت تمام مغربی ملکوں میں دائیں بازوں کی پارٹیاں آہستہ آہستہ اپنی طاقت بہت بڑھاچکی ہیں۔ امریکہ اس میدان میں سب سے آگے ہے جس کے ساتھ اسرائیل اور وہ ممالک بھی ہیں جو طاقت کے بل پرحکومت کررہے ہیں اورکرنا چاہتے ہیں اورفاشزم کاایک اصول زبردستی الیکشن (بے ایمانی سے)جیتنابھی ہے۔ جب کہ اس کا پہلا اصول تمام انتظامی اداروں اور عدلیہ پرقبضہ کرنا ہے،جس کی تصویرہمارے ملک میں اب نمایاں طورپر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہی طریق کار مسولینی نے 1919میں اٹلی میں اورہٹلر نے 1931میںاختیارکیاتھا۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر نیند نہیں آتی کہ کہیں احتجاج اوربڑھے تو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نہ پھوٹ پڑیں۔چونکہ اب جنرل بپن راوت تینوں فوجوں کے کمانڈرہیں اور حکومت کے منظورنظر بھی تو کہیں یہ حکومت فوج کے ذریعہ ایمرجنسی نہ نافذکرادے اوروہ سب نہ کرلے جو وہ کرناچاہتی ہے؟
آخرمیںیہ عرض ہے کہ یہ بل پاس ہونے کے بعد ہماراملک پوری دنیا میں بدنام ہواہے ۔ ’دی اکنامسٹ میگزین‘ کے کور پیچ پر ’ان ٹولارینٹ انڈیا‘ (بے صبراہندوستان)میگزین لکھتاہے شہریت ترمیمی قانون حکومت کے پانچ سالہ اشتعال انگیز کارروائیوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔‘ بھلے ان خطرناک پالیسیوں سے مودی الیکشن جیت جائیں لیکن یہ ملک کے لیے ’سیاسی زہر‘ثابت ہوں گی۔اس نے آگاہ کیاہے کہ اس قانون کے نافذ ہونے سے ملک میں خون خرابہ ہوسکتاہے۔ دنیاکی کئی نامورہستیوںنے بھی مسلمانوں کے خلاف حکومت کی اس سازش پر تنقید کی ہے۔ ان میں ارب پتی جارج سوروس نے ’دیواس سوئزرلینڈورلڈ اکنامک‘ کے موقع پر کہاہے کہ نریندرمودی ہندوستان کو ہندو راشٹر ابنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مودی کشمیریوں پرجبروظلم کے ساتھ انتقامی کارروائیاں کررہے ہیں اورہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں سے ان کی شہریت چین لینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ڈراؤ مت ہمیں، ہم مر کے جینے والے ہیں
کہ ہم نے دار و رسن کی بہار دیکھی ہے
¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422
[email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا