قطب الدین انصاری سے عائشہ رَنّا تک

0
0
(بقلم: ایم. ایم. سلیم)
                              (9975783737)
       گجرات فسادات کو ملک عزیز کا مسلمان کبھی بھی نہیں بھلا پائے گا۔ کیوں کہ ان فسادات نے وہ نقوش چھوڑے ہیں جن کا مٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ گجرات فسادات میں مرنے والوں کی تعداد پر نظر دوڑائیں تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں تقریباً دو ہزار افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔جبکہ غیر سرکاری ایجنسیاں کچھ اور ہی اعداد وشمار پیش کرتی ہیں۔ کتنے ہی گھر اور خاندان اجڑ گئے ہیں، کتنوں کو مہاجر ہونا پڑا، کتنے ہی یتیم، بیوہ اور بے سہارا ہوگئے۔سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئیں۔کیا عام اور کیا خاص کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔حتٰی کہ ممبر آف پارلیمنٹ تک کو بھی نہیں بخشا گیا۔جس کی مثال ہمارے سامنے احسان جعفری صاحب کی ہے۔ گجرات فسادات سے ایک ایسی تصویر دنیا کے سامنے آئی تھی جو گجرات کے فسادات کو سمجھنے کے لئے کافی تھی، جو ان  فسادات کی بھیانک اور بدترین تصویر پیش کر رہی تھی۔ وہ تصویرتھی قطب الدین انصاری کی جو کہ زخمی ہونے کے علاوہ ہاتھوں پر پٹی باندھے دونوں ہاتھ جوڑے فسادیوں سے رحم کی بھیک  مانگ رہے تھے۔ اس وقت اس تصویر نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایک علامتی درجہ حاصل کرلیا تھا۔ حالانکہ تب انٹرنیٹ کا اتنا استعمال عام نہیں تھا۔ جوبھی اس تصویر کو دیکھتا سہم جاتا، اور اسے گجرات فساد یاد آجاتا۔ یہ تصویر ظلم اور بربریت اور مظلومیت کی تصویر بن چکی تھی۔مسلمانوں پر ایک طرح سے خوف و ہراس کا ماحول چھایا ہوا تھا۔ جو بھی اس تصویر کو دیکھتا اندازہ لگا لیتا کہ فسادات کی صورتحال کتنی بھیانک اور بدترین ہوگی۔
    جب سے مودی اور شاہ نے اقتدار سنبھالا ہیں تب سے ہی من چاہے فیصلے لے رہے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کو پارلیمنٹ کی دونوں ایوانوں میں پاس کرا لیا ہے،جس کی پورے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں بھی زبردست مخالفت ہورہی ہے۔ پورے ملک میں اس احتجاج میں بڑے پیمانے پر خواتین شامل ہیں، اور یہ کہنا ٹھیک ہی ہوگا کہ مردوں سے زیادہ خواتین ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں، بلکہ بعض جگہوں پر تو قیادت بھی کررہی ہیں۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس قسم کے احتجاج ہو رہے ہیں۔
      اس بیچ ان احتجاجی مظاہروں سے ایک تصویر دنیا کے سامنے ابھرکر آئی ہے جو کہ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی ہے، چند پولیس والے ایک طالب علم کو بڑی بے رحمی سے مار پیٹ رہے ہیں اور اس طالب علم کو چند لڑکیاں گھیرے ہوئی ہیں اور پولس کی مار سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔اس بیچ ایک لڑکی انگلی کے اشارے سے پولیس کو روک رہی ہے۔ اس تصویر نے پورے ملک میں دھوم مچا دی ہے، اور اس قانون کے خلاف لڑنے والوں میں جان پھونک دی ہے۔کتنوں کو اس تصویر نے احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ اس تصویر نے کتنے ہی لوگوں کو تحریک دیا ہے کہ ایک لڑکی ہوکر اگر وہ پولس کے ظلم کو روک سکتی ہے تو پھر ہم کیوں نہیں۔
    دراصل حجاب میں پولس کو روکتے ہوئے جس لڑکی کی تصویر منظر عام پر آئی ہے اس لڑکی کا نام عائشہ رنّا ہے۔ اور ان کے ساتھ ایک اور لڑکی ہے جس کا نام لدیدہ ہے۔ اور پولیس جس طالبعلم کو مار رہی ہے ان کا نام شاہین عبداللہ ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ ملیہ میں مظاہرہ شروع تھا لیکن اس دوران اچانک کیا ہوا کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلا سب طرف افراتفری مچ گئی پولس نے آنسو گیس کے گولے داغنے شروع کر دیئے۔جس سے بچنے کے لیے یہ لوگ کہیں چھپ گئے لیکن پولیس وہاں بھی پہنچ گئی اور انہیں مارنے لگی، لیکن ان لڑکیوں نے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا، جو تصویر کی شکل میں آج ہم سب کے سامنے ہے۔
       اب ذرا ان دونوں تصاویر کا موازنہ کریں تو ایک طرف وہ تصویر ہے جہاں گجرات جل رہا ہے جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا وہ تصویر اس گجرات کی تصویر پیش کر رہی تھی، جہاں انسانیت کا ننگا ناچ کھیلا گیا تھا، وہ تصویر لاچاری اور بے بسی کی پہچان بن گئی تھی، لوگ اس تصویر کو دیکھ کر ہی وہاں کے حالات کو محسوس کر رہے تھے کہ جن پر گزری ہوگی وہ کیا اور کس طرح گزری ہوگی، اور کتنے بھیانک طریقہ سے اس پورے واقعے کو انجام دیا گیا ہو گا۔ اور اگر آج کی جامعہ کی تصویر کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پولیس کتنی بربریت سے کھلے عام طلباء و طالبات پر ظلم کر رہی ہیں۔جس پولس کو رکشک کہا جاتا ہے اس نے بھکشک کا روپ اختیار کیے ہوئے ہیں اور نہتے شہریوں پر لاٹھیاں برسا رہی ہیں۔
      جب قطب الدین انصاری کی وہ تصویر دنیا کے سامنے آئی تھی اور جہاں سے آئی تھی تب بھی مودی اور شاہ کی جوڑی تھی۔ اور آج جب عائشہ کی تصویر دنیا نے دیکھا ہے تب بھی آج وہی دونوں ملک کے اقتدار پر بیٹھے ہوئے ہیں۔مودی شاہ کے دور میں جس بربریت کا مظاہرہ گجرات میں ہوا تھا وہ سمجھ رہیں تھے کہ پورے ملک کو گجرات بنا دیں گے۔ اور گجرات ماڈل کو پورے ملک میں نافذ کریں گے۔لیکن ان کی یہ چال الٹی ثابت ہوگئی۔ اس قانون کے خلاف پورا ملک اٹھ کھڑا ہو چکا ہے، اور اب یہ احتجاج نہیں تھمنے والا۔ اس احتجاج میں خاص بات یہ ہے کہ اس کی باگ ڈور کسی سیاسی جماعت یا نیتا نہیں کررہا بلکہ پورے ملک کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات ہیں جو اب بھی محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حکومت ہرممکن کوشش کر رہی ہے کہ وہ طلباء کے اس احتجاج کو کسی بھی طرح سے ختم کردے، اور حکومت کی بوکھلاہٹ جے.این.یو. کے طلباء پر حملہ سے ظاہر ہے۔حکومت چاہے کچھ بھی کرلے،اب یہ احتجاج کا طوفان تھمنے والا نہیں ہے۔ ملک کی عوام اب ان کی چال کو سمجھ چکی ہیں،ملک کا سیکولر طبقہ اور انصاف پسند و جمہوریت پر  یقین رکھنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی اب ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ نہ ہی2002 ہے اور نہ ہی گجرات ہے، اور آپ کے سامنے جو تصاویر آرہی ہیں وہ بزدلی کی نہیں بلکہ ہمت، شجاعت، بہادری اور جواں مردی کی آرہی ہے۔ ہمیں ڈرنا نہیں ہے، انشاء اللہ ہم ہی غالب رہیں گے بس ہمیں مومن بننا ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا