آرٹیکل 370 ہٹانے کی قانونی حیثیت کو چیلنج والی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ رکھا فیصلہ
لازوال ڈیسک/ایس ایچ
نئی دہلی؍؍ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 ہٹانے کے خلاف دائر درخواستوں کو سماعت کے لئے بڑی آئینی بینچ کو بھیجا جائے یا نہیں ،اس پر سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ مرکز نے اسے بڑی بنچ کو بھیجے جانے کی مخالفت کی ہے۔ مرکز نے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 پر پہلے دیے فیصلیکاموجودہ کیس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کے ک ے وینو گوپال نے تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے آئین ساز اسمبلی اور وہاں ریاست کے مخصوص آئین کی بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کے راجہ ہری سنگھ نے ریاست کے ہندوستان میں الحاق حامی بھری۔ جون 1949 میں انضمام کے بعد اور نومبر 1950 میں یوراج کرن سنگھ کو الیکشن کے ذریعے ممکنہ صدرریاست قرار دیا گیا۔ اب پریم ناتھ کول کے مقدمے میں یہ سوال اٹھا کہ کیا راجہ کو قانون بنانے کا حق ہے یا نہیں؟ تو کیا پارلیمنٹ کے قانون بنانے کے اختیارمیں کوئی راجہ دخل دے سکتا ہے ؟ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا وہ پریم ناتھ کول کیس کا فیصلہ اور اس کے بعد آئے فیصلوں میں کوئی تبدیلی یا تضاد نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مہاراجہ کو ریاست کے آئینی سربراہ / صدرریاست کی منظوری ہوگی۔ مہاراجہ کے حقوق اور اختیارات محدود ہوں گے لیکن اس وقت یوراج کو قانون بنانے کے لئے اہل تصور کیا گیا تھا۔ پریم ناتھ کول کا وہ مقدمہ راجہ کے لینڈ ریفارم قانون بنانے اور لاگو کرنے کے حقوق پر حملہ تھا۔ جموں و کشمیر کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ دونوں فیصلوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔لہٰذا بڑی بنچ کو بھیجنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بتانا چاہتے ہیں کہ حقیقی علیحدگی پسند کون ہیں۔ اس پر راجیو دھون نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ سیاسی بیان بازی کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکیل ظفر احمد شاہ نے کورٹ میں جو دلیلیں رکھیں وہ سیاسی تھیں اور علیحدگی پسند لیڈروں کو صحیح ٹھہرا رہے تھے۔ تب جسٹس سنجے کشن کول نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنس پر بحث کریں۔ وکیل راجیو دھون نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مکمل تاریخ بتائی جو بے تکی، دلیلیں تھیں۔ تب جسٹس کول نے کہا کہ ہم نے اٹارنی جنرل اور شاہ دونوں کو سنا۔ دھون نے کہا کہ مرکزی حکومت کی دلیلوں سے وہ متفق نہیں ہیں۔ دھون نے کہا کہ پریم ناتھ کا فیصلہ قابلیت کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہئے، جبکہ سمپت پرکاش کا فیصلہ حراست کے معاملات کی توسیع ہے۔ دھون نے جموں و کشمیر کا ایک نقشہ دکھایا جس پرتشار مہتہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر متعلقہ ہے۔ جسٹس کول نے پوچھا کہ آپ نقشے دکھا کر کیا کہنا چاہتے ہیں۔ تب دھون نے کہا کہ یہ عظیم ریاست پر دو طاقتوں کا حق ہے اور ہم نے اسے مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں تبدیل کر دیا۔ دھون نے کہا کہ فی الحال جو صورتحال ہے وہ پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ اس میں ریفرنس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ دھون نے کہا کہ کوئی بھی ترمیم جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 147 کے ساتھ تال میں میں ہونی چاہئے تھ۔ آرٹیکل 370 پر ترمیم آئین ساز اسمبلی کے حساب سے ہونی چاہئے۔ انہوں نے پوچھا کہ جموں و کشمیر سے تحفظ کیوں خارج کر دیا گیا۔ اس میں کسی بھگوان کا ہاتھ نہیں ہے اور اسے کوئی کتاب درست نہیں ٹھہرا سکتی ہے۔ جموں و کشمیر کے سی پی ایم کے رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی کی جانب سے وکیل چندر اودے سنگھ نے کہا کہ وہ ریفرنس کے معاملے پر راجیو دھون کی دلیلوں سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنس کو بڑی بنچ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سنگھ نے کہا کہ سمپت پرکاش اور پریم ناتھ کول کے فیصلے میں تھوڑی خرابی ہے لیکن وہ اتنے بڑے نہیں ہیں کہ اسے بڑی بنچ کو بھیجا جائے۔ ایک درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل گوپال شنکرنارائن نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے جموں و کشمیر پر لاگو کرنے کو لے کر عدالتی جائزہ صرف آئین ساز اسمبلی کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد بھارت اور جموں و کشمیر کا تعلق ہی ختم ہو گیا۔ سینئر وکیل دنیش دویدی نے اپنا جواب دیتے ہوئے کورٹ سے پوچھا کہ آئین کی تمام دفعات میں ترمیم ہو سکتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب کے سب عارضی ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ تمام عارضی نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 370 سے جموں و کشمیر کے تمام ایگزیکٹو آرڈر ختم کئے جا سکتے ہیں۔ بھارت اور جموں و کشمیر کا آئین دونوں ایک دوسرے سے نہیں چھوتے ہیں۔