تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلیemail:[email protected] Siwani ki Mehfil/Facebook
کیوں نہ مرکزی حکومت پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون پاس کرائے جس کے تحت اردو شاعری پر پابندی لگادی جائے؟کیونکہ اس میں محبت اور خودسپردگی ہی نہیں بلکہ بغاوت کی آگ بھی ہے۔ ویسے بی جے پی کے پاس ایوان میں اکثریت بھی ہے۔ حکومت کو جن خطروں کا سامنا ہے ، ان میں سے ایک اردوشاعری بھی ہے۔انگریزوں کو اردو شاعری سے ڈرلگتا تھا اور کئی شاعروں کے ادبی اثاثوں کو ضبط کرلیا گیا تھا اور آج جمہوریت کے شہنشاہوں کو بھی اردوشعروا دب سے خوف محسوس ہورہے۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہےدیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے کبھی رام پرساد بسملؔ کا یہ شعر انگریزوں کو ڈراتا تھااور آج کے کالے انگریزوں کو بھی ڈرارہا ہے۔ ادھر سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا نیا ہتھیار بھی شاعری ہی ہے۔ قوم کے شیروں یعنی نونہالوں کی زبانوں پربھی اردو اشعار ہیں اور ظلم کے بھسماسور سے لڑنے کے لئے وہ شاعری کا سہارا لے رہے ہیں۔راحت اندروی کا ایک شعر نعرہ بن چکا ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میںکسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے فیضؔ کی نظم بچے بچے کی زبان پر ہے: ہم دیکھیں گےلازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
فیضؔ کی یہ نظم آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے گائی تو حکومت خوفزدہ ہوگئی اور طلبہ کے خلاف انکوائری بٹھادی ۔پھر کیا تھا پورے ملک میں احتجاجیوں کی پہلی پسند بن گئی۔ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔ جامعہ اور جے این یو سے لے کر آئی آئی ٹی احمدآباد تک اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ تمام چھوٹے بڑے گارہے ہیں۔ہر احتجاجی پروگرام میں گائی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ نظم کے خالق فیضؔ کی جستجو بھی شروع ہوچکی ہے۔ دلی کے بک فیئر میں ایسے شائقین کی بڑی تعداد دیکھی گئی جو فیضؔ کے کلام کو رومن اور دیوناگری رسم الخط میں چاہتے تھے۔انٹرنیٹ پر ان کا مطالعہ کرنے والے اچانک بڑھ گئے ہیں۔فیضؔ اور باجپائی 1970ء کی دہائی میں جنتاپارٹی کی حکومت کے دوران جب اٹل بہاری واجپائی وزیرخارجہ تھے تو پاکستان کے دور پر گئے اور پروٹوکول توڑ کر فیض احمد فیضؔ سے ملنے پہنچ گئے۔ فیضؔ سے مل کر انھوں نے کہا آپ کے ایک شعر پر میری زندگی بھر کی شاعری قربان۔ فیضؔ نے پوچھا وہ کونسا شعر ہے توباجپائی نے کہا:مقام فیض ؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیںجوکوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے آج وہی فیضؔیوپی کے بدذوق اور شعروادب سے نابلد وزیراعلیٰ کو ہندو مخالف لگ رہے ہیں۔ فیضؔ سچے شاعر تھے اور اپنی شاعری میں ظالم وجابر حکمرانوں کی خبر لیتے تھے لہٰذا انھیں جس طرح پاکستان کے حکمرانوں نے ناپسند کیا،اسی طرح یوگی کو بھی چبھ رہے ہیں۔ انھیں زندگی بھر اسلام مخالف ہونے کا طعنہ دیا گیااور گرفتار کرکے جیل بھی بھیجا گیا اور آج ان کی ایک نظم گانے پر اترپردیش کی حکومت کاروائی کے درپے ہے۔’ ہم دیکھیں گے‘فیض کی معروف نظم ہے ۔ البتہ پہلے اسے اہل ادب ہی جانتے تھے مگر جب سے یہ نظم یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کو کھلنے لگی ہے، تب سے یہ خوب سنی جارہی ہے اور بچے بچے کی زبان پر ہے۔ احتجاج اور مظاہروں میں شرکت کرنے والے تو اسے گاہی رہے ہیں، اپنے موبائلوں میں بھی لوگ خوب سن رہے ہیں اور گزشتہ چند دنوں کے اندر یوٹیوب پر اسے سننے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ ہندوستانی کی بیشتر علاقائی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس نظم کو ابتدا میں پاکستان کی معروف غزل سنگر اقبال بانو نے گایا تھا، اس کے بعد راحت فتح علی خان اور کچھ دوسرے سنگرس نے بھی گایا ہے۔ یہ نظم پاکستان کی فوجی حکومت کے خلاف لکھی گئی تھی، جس میں ظلم وجبر کی شکایت کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی ہے کہ ایک دن، اس دورِستم کا خاتمہ ہوگا اور مظلوموں کے ہاتھ میں اقتدار آئے گا۔ ظاہر ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی مخالفت کی جائے مگر سی اے اے کے خلاف سڑک پر اترے احتجاجیوں پر یوگی سرکار کی پولس نے جس طرح مظالم ڈھائے ہیں، اس کے بعد اسے اس نظم سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ بزرگ قلمکارفاروق ارگلی کہتے ہیں:
ہم تو تلوار سے نہیں ڈرتےآپ اشعار سے ڈر جاتے ہیں
ظلم کے خلاف ہتھیار فیض ،ؔپوری زندگی پاکستان کی فوجی حکومتوں کے خلاف لڑتے رہے ۔ انھوں نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے عہد میں یہ نظم لکھی تھی جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ مشہور ہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں جب اقبال بانو کو ایک پرگروم میں بلایا گیا تو انھوں نے یہی نظم گادی اور عوام میں زبردست اشتعال پھیل گیا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے مائک بند کردیا گیا مگر پھر بھی وہ گاتی رہیں اور حاضرین تالیاں بجاتے رہے اور اقبال بانو کا ساتھ دیتے رہے۔ تب سے اب تک ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے فیضؔ کی یہ اورا س طرح کی دوسری نظموں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے دعائیہ نظم بھی جرم یہ پہلا موقع نہیں جب شاعری سے بھاجپائی حکومت کو ڈر لگا ہو۔ ابھی چند مہینے قبل کی بات ہے کہ اقبال کی دعائیہ نظم ’لب پہ آتی ہے دعاء بن کے تمنا میری ‘ایک اسکول کے بچوں نے پڑھی تو اس جرم میں اسکول کے پرنسپل کو برخواست کردیا گیا۔جرائم ،ریپ اور لاقانونیت کے لئے سرخیوں میں رہنے والی ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع پیلی بھیت کا یہ معاملہ ہے۔ضلع انتظامیہ کو یہ پسند نہیں آیا کہ ایک پرائمری اسکول کے بچے دعائیہ نظم پڑھیں اورہیڈ ماسٹر کو بچوں سے اقبال کی نظم پڑھوانے پر معطل کر دیا۔ معاملے کی جانچ کے بعد ایجوکیشن آفیسر اپیندر کمار نے ایک بیان میں کہا کہ ہیڈماسٹر45 سالہ فرقان علی بچوں سے علامہ اقبال کی مذہبی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ گوایا کرتے تھے۔ شواہد کی بنیاد پر ہیڈ ماسٹر فرقان علی اس کے لئے ذمہ دار پائے گئے ہیں اور انھیں معطل کیا جاتا ہے۔‘راحتؔ کا ایک شعر سی اے اے ، این آرسی اور تعلیمی اداروں میں حکومت کے مظالم کے خلاف ان دنوں پورے ملک میں مظاہرے ہورہے ہیں جن میں پلے کارڈس سے نعروں تک اور تقریروں سے لے کر سوشل میڈیا کی تحریروں تک اردو اشعار نظر آتے ہیں۔ راحتؔ اندوری نے جو شعر تین دہائیوں قبل کہا تھا وہ آج احتجاجیوں کا نعرہ بن چکا ہے۔ پلے کارڈ پر لکھا نظر آرہا ہے، لوگ ٹویٹ کر رہے ہیں، تحریروں اور تقریروں میں استعمال کر رہے ہیں۔ شعر ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحتؔ اندوری مشاعروں کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ وہ اس قدر سنجیدہ شاعری کرتے ہیں کہ جن فلموں میں انھوں نے گانے لکھے ہیں، وہاں بھی اس کا اثر نظر آرہا ہے۔ یہاں تک کہ گوندا کی کامیڈی فلموں میں بھی انھوںنے سنجیدہ گیت لکھے ہیں۔ راحت صاحب نے مذکورہ بالا شعر تین دہائیوں قبل لکھا تھا، مشاعروں میں پڑھتے تھے اور یہ عوام کی زبان پر بھی رہا مگر حالیہ ایام میں جب شہریت ایکٹ اور این آرسی کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو یہ شعر مزید پاپولر ہوا اور سرخیوں میں آیا۔ جوکچھ ایک مصرع میں کہا گیا تھا وہ عوام الناس کے دل کی آواز ہے۔ یہی سبب ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں یہ مظاہرین کا نعرہ بن گیا۔ اس نعرے کا پوسٹر مظاہرین کے ہاتھوں میں دیکھا گیا جو سی اے اے اوراین آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ رواں سال جون میں ، یہ نعرہ پارلیمنٹ میں ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے بھی لگایا تھا۔ اداکار امال پال اور فلمساز عاشق ابو نے اس کا ترجمہ ملیالم میں کیا اور انسٹاگرام پر ایک پوسٹر شائع کیاجب کہ شیوسینا کے لیڈر سنجے راوت نے بھی اس کو ٹویٹ کیا ۔ گجرات کانگریس کے لیڈر ہاردک پٹیل نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مرکز میں نریندر مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے ٹویٹ کیا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
انھوں نے مزید لکھاراحت اندوری صاحب! میرے خیال میں کچھ لوگوں کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا کہ یہ ہندوستان کسی کے باپ کا نہیں ہے۔ جئے ہند۔‘ہاردک پٹیل نے یہ ٹویٹ 17 دسمبر کو کیا تھا۔ ٹویٹ کرنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ہاردک پٹیل کا ٹویٹ وائرل ہو گیا۔ راحت اندوری کہتے ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ لوگ اسے اپنے مطالبات کو اٹھانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ وہ اسے اپنی آواز میں وزن بڑھانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اسے ملک میں امن کی آواز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔(یو این این)