کشمیر میں سنیما کی واپسی کی تیاریاں زوروں پر

0
0

فلم سٹی کا قیام اور فلم پالیسی لانا حکومت کے زیر غور
یواین آئی

سرینگر؍؍ حکومت وادی کشمیر میں حیدر آباد میں واقع مشہور ‘راموجی فلم سٹی’ کے طرز پر ایک فلم سٹی کے قیام اور جموں وکشمیر کے لئے ایک نئی فلم پالیسی مرتب کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔دریں اثنا وادی میں 30 برس کے طویل عرصے کے بعد سنیما گھروں کا دوبارہ کھلنا تقریباً طے ہے۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر کے سیول لائنز میں جہاں ایک ملٹی پلیکس (ایک سے زیادہ سکرینوں والے سنیما گھر) کی تعمیر کا کام جاری ہے وہیں قریب تین دہائیوں سے بند پڑے سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں۔باوثوق سرکاری ذرائع سے یو این آئی کو معلوم ہوا ہے کہ حکومت جموں کشمیر کے لئے نئی فلم پالیسی پر ایک مفصل رپورٹ مرتب کررہی ہے علاوہ ازیں وادی کشمیر کے منفرد حسن وجمال کے پیش نظر وادی میں حیدرآباد میں واقع مشہور ‘راموجی فلم سٹی’ کے طرز پر ایک فلم سٹی کا قیام عمل میں لانے پر غور کررہی ہے جس کے لئے پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو بھی سرمایہ کاری کرنے کے لئے دعوت دی جائے گی یا حکومت ضروری ڈھانچے کے تعمیر کے لئے از خود سرمایہ کاری کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پالیسی کو حتمی شکل دینے سے قبل اس کے تمام امور پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔ ریاستی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سری نگر کے سیول لائنز میں ایک ملٹی پلیکس سنیما گھر کی تعمیر کا کام جاری ہے تاہم انہوں نے اس کی جائے تعمیر اور مالکانہ حقوق سے متعلق تفصیلات منکشف کرنے سے معذرت ظاہر کی۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ بند پڑے سنیما گھروں کی بحالی کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ جموں کشمیر کی فطری خوبصورتی کے پیش نظر حکومت کو نہ صرف ملک بھر سے فلم انڈسٹری کو مدعو کرنے میں مدد ملے گی بلکہ مقامی فلم سازوں کو بھی فائدہ ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ فلم سازوں کو لائسنسز، اجازت نامے اور دیگر ضروری اسناد و دستاویزات حاصل کرنے کے لئے تمام لوازمات کی ادائیگی کو آسان بنانے کے لئے ‘سنگل ونڈو پروویڑن’ متعارف کیا جائے گا جس کے لئے مختلف سرکاری محکمے جیسے محکمہ داخلہ، محکمہ اطلاعات عامہ اور محکمہ سیاحت مل جل کر کام کریں گے نیز مقامی یا ملکی فلم سازوں کو یونین ٹریٹری کے ضوابط کے مطابق سبسڈی دینے کا معاملہ بھی زیر غور ہے۔جموں کشمیر سے تعلق رکھنے معروف فلم ساز راہل شرما، جنہوں نے ڈوگری فلم ‘گیتی یان’ کی ہدایت کاری اور سنیما ٹوگرافی میں کافی شہرت حاصل کی ہے، نے حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کے لئے نئی فلم پالیسی کی ترتیب کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ‘اس فیلڈ میں مختلف لوگ کام کرتے ہیں، اس میں قلم کار ہوتے ہیں، ہدایت کار ہوتے ہیں، اداکار ہوتے ہیں اور موسیقار ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جموں کشمیر میں تکنیک کاروں کی کمی ہے’۔موصوف ہدایت کار نے کہا کہ جموں کشمیر میں فلم سازی کے لئے گنے چنے لوگ ہی ضروری تکنیکی مہارت رکھتے ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پالیسی میں فلم تکنیکی ماہرین کی الگ ونگ ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ بنکنگ سیکٹروں، تاجروں اور سیول سوسائٹی ارکان کو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سیکٹر جموں کشمیر میں پھل پھول سکے۔اداکار و ڈائریکٹر وکرم شرما کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر فلم سازی کے لئے ضروری خوبصورتی، ماحول اور ڈیموگرافی سے مالا مال ہے جو باقی دنیا کی باقی جگہوں سے بہتر ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر جنوبی ایشیا کا واحد ایسا خطہ ہے جہاں ایک بھی سنیما گھر موجود نہیں ہے۔ جن سنیما گھروں میں 1980 کی دہائی میں فلمیں دکھائی جاتی تھیں وہ اب یا تو سیکورٹی فورسز کی زیر تصرف ہیں یا ان کی عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ وادی کی برف سے ڈھکی پہاڑیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور دلکش آبی ذخائر بالی ووڈ کو فلموں کی عکس بندی کے لئے یہاں کھینچ لاتے ہیں اور بیسویں صدی کی چھٹی سے لیکر آٹھویں دہائی تک بیشتر بالی ووڈ فلموں کی عکس بندی یہیں ہوئی ہیں۔وادی کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے ‘وادی میں 1980 کی دہائی کے اواخر میں نامساعد حالات نے جنم میں لیا جس نے یہاں سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے’۔مبصرین کے مطابق وادی میں 1980 کی دہائی میں 15 سنیما گھر چل رہے تھے جن میں سے سری نگر میں 9 جبکہ باقی 6 وادی کے دوسرے قصبوں میں چل رہے تھے۔ سری نگر میں پلیڈیم سنیما، نیلم سنیما، ریگل سنیما اور براڈ وے سنیما میں زبردست بھیڑ لگی رہتی تھی۔ تاہم اسی دہائی کے اواخر میں شروع ہونے والی مسلح شورش کے نتیجے میں یہ سبھی سنیما گھر یکے بعد دیگرے بند ہوئے۔مبصرین کے مطابق 18 اگست 1989 کو اْس وقت کی سرگرم جنگجو تنظیم ‘اللہ ٹائیگرس’ نے ایک بیان جاری کرکے سنیما گھروں اور شراب کی دکانوں کے مالکان کو اپنا کاروبار بند کرنے کے لئے کہا تھا۔ اس بیان کے قریب تین ماہ بعد تک وادی میں سبھی سنیما گھر بند ہوچکے تھے۔اگرچہ 1999 میں ریگل، نیلم اور براڈ وے سنیما گھروں کو دوبارہ کھولا گیا تاہم ان پر ہوئے حملوں کی وجہ سے یہ دوبارہ بند ہوئے۔ذرائع کے مطابق سیول لائنز (سری نگر) میں ملٹی پلیکس سینما گھر کی تعمیر کا کام اور بند پڑے سینما گھروں کی بحالی کی کوششیں جموں وکشمیر کے سابق اور آخری گورنر ستیہ پال ملک کی معاملے میں ذاتی دلچسپی سے شروع ہوئیں۔موصوف نے 10 جنوری 2019 کو کٹھوعہ میں منعقدہ آٹھویں پولیس شہداء میموریل ٹی ٹونٹی چمپئن شپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ‘کشمیر میں بچوں کے پاس چھ بجے کے بعد کرنے کو کچھ نہیں ہوتا ہے۔ وہاں کے بچوں نے تو سنیما بھی نہیں دیکھا ہے۔ ابھی میں نے ایک سنیما گھر کی سنگ بنیاد رکھوائی ہے’۔اس بیان کے ایک روز بعد یعنی 11 جنوری کو ستیہ پال ملک نے نو منتخب سرپنچوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ‘کشمیر کا مسئلہ 13 سے 30 سال کے نوجوانوں کے درمیان ہے۔ ان کے پاس شام کے بعد کرنے کو کچھ نہیں ہوتا ہے۔ سنیما نہیں ہے۔ باہر جانے کی جگہ نہیں ہے۔ ابھی میں نے ایک سنیما گھر کی سنگ بنیاد رکھوائی’۔ستیہ پال ملک نے اس سے قبل 24 اکتوبر 2018 کو ایک نجی ٹی وی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ وادی کا پہلا ملٹی پلیکس سنیما گھر معروف کشمیری ماہر تعلیم اور سیاستدان آنجہانی ڈی پی دھر کے بیٹے اور دہلی پبلک اسکول (ڈی پی ایس) سری نگر کے چیئرمین وجے دھر کی جانب سے قائم کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا: ‘یہاں (کشمیر) کے بچے کے پاس چھ بجے کے بعد کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ یہاں سنیما گھر نہیں ہیں۔ میں نے وجے دھر سے بات کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں یہاں ملٹی پلیکس بنائوں گا۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے یہاں درخواست بھی دی ہے۔ ڈی ایم نے کہا کہ میں ایک مہینے کے اندر منظوری دوں گا’۔انہوں نے کہا تھا ‘یہاں سنیما ، کافی ہاوسز، غرض وہ ساری چیزیں مہیا کرائی جائیں گی جہاں نوجوان بیٹھیں گے، گپ شپ کریں گے۔ بات کریں گے۔ خرافات سوچنے کے بجائے مثبت چیزیں سوچیں گے’۔گورنر ستیہ پال نے کہا تھا کہ کشمیر میں ملٹی پلیکس سنیما گھر قائم کرنے کے علاوہ بڑی تعداد میں کافی شاپس قائم کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا: ‘وجے دھر جن کا ڈی پی ایس ہے، ان کے والد ڈی پی دھر شیخ محمد عبداللہ کے دوست تھے۔ انہوں نے ایک ملٹی پلیکس کے لئے پہلے ہی درخواست دی ہے۔ بہت لوگ آگے آرہے ہیں کہ ہم باریستا کھولیں گے۔ کافی شاپس کھولیں گے۔ جے کے بینک یہاں کی فٹ بال ٹیم کا پورا خرچہ اٹھائے گی’۔بتادیں کہ وادی میں تقریباً تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتیں سنیما گھر کھولنے کے حق میں ہے تاہم علیحدگی پسند جماعتیں ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کررہی ہیں۔نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے 16 مئی 2017 کو سری نگر کے شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن کمپلیکس (ایس کے آئی سی سی) میں کشمیر پر بننے والی بالی وڈ فلم ‘سرگوشیاں’ کے پریمئر شو کی تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران وادی کشمیر میں سنیما ہال کھولے جانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے جہاں سینما ہال نہیں ہیں۔انہوں نے کہا تھا ‘دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سینما ہال نہیں ہیں۔ واحد ایک جگہ کشمیر ہے جہاں فلمیں دکھائی نہیں جاتی ہیں۔ ہمارا پڑوسی پاکستان ، وہاں بھی فلم ہال ہیں۔ تو یہاں کیوں بند کردیے گئے ہیں؟ کیا فلمیں دیکھنی غلط ہے؟ جب گھروں میں ٹیلی ویڑن ہیں تو سنیما گھر کیوں نہیں بن سکتے ہیں؟’۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا