تبصرہ

0
0

کتاب: گاہے گاہے باز خواں
مصنف: سلام بن رزاق
مبصر: محمد علیم اسماعیل

 

سلام بن رزاق ہمارے عہد کے قد آور افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو کئی شاہکار افسانے دیے ہیں۔ جدیدیت کے زیراثر ان کی افسانہ نگاری کی شروعات ہوئی۔ استعاراتی، علامتی افسانوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے بیانیہ افسانے بھی تخلیق کیے اور آج بھی ان کا قلم تھکا نہیں، رکا نہیں۔ جس میں اب بیانیہ افسانوں کی تعداد زیادہ ہیں۔ انھوں نے زیادہ نہیں لکھا، لیکن جو لکھا، خوب لکھا۔ جو ادب کا خزینہ ہے۔ نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ موضوع اور فن کا خیال رکھتے ہوئے انھوں نے مکمل فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ اب تک ان کے چار افسانوی مجموعے، شکستہ بتوں کے درمیاں، معبّر، ننگی دوپہر کا سپاہی، اور زندگی افسانہ نہیں، شائع ہوئے ہیں۔
سنہ 2019 کے آخر میں انکی کتاب ’’گاہے گاہے باز خواں‘‘ شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں اردو کے کلاسیکی افسانے، پوس کی رات، ٹھنڈا گوشت، دو فرلانگ لمبی سڑک، لاجونتی، جڑیں، نظارہ درمیاں ہے، مور نامہ، گاڑی بھر رسد، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، ہزاروں سال لمبی رات، آگ کے پاس بیٹھی عورت، پیتل کا گھنٹہ، تحویل اور اِن افسانوں کے تجزیے شامل ہیں۔ انھوں نے یہ تجزیے روزنامہ انقلاب کی فرمائش پر لکھے تھے جو روز نامہ انقلاب میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے۔ اب وہی تجزیے کچھ اضافے کے ساتھ ہمارے سامنے کتابی شکل میں موجود ہیں۔
افسانوی تجزیہ نگاری افسانے کو سمجھنے کا فن ہے۔ جس میں افسانے کی تہوں کو پرت در پرت کھولا جاتا ہے اور اس میں پوشیدہ ابعاد کو روشن کیا جاتا ہے۔
افسانوں کے بہتر تجزیے وہی کر سکتا ہے، جو افسانہ نگاری کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، مطلب یہ کام ایک اچھا افسانہ نگار ہی کر سکتا ہے۔
افسانوں کے تجزیے زیادہ طویل نہیں ہیں، نہ بہت مختصر۔ ہر تجزیے کے ابتدا میں افسانے کے مصنف کا مختصر تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ ویسے تو کتاب میں شامل سبھی افسانے اردو کے کلاسیک افسانے ہیں، اور ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود سلام بن رزاق نے کچھ نئے پہلو ضرور تلاش کر لیے ہیں۔
پریم چند کا مشہور افسانہ ’پوس کی رات‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے زمانے کا ’بینکنگ سسٹم‘ پریم چند کے عہد کی ’مہا جنی‘ تہذیب سے زیادہ بھیانک اور سفاک ہے؟ کیونکہ اس زمانے کے کسان حالات کے جبر کا شکار ضرور ہوتے تھے مگر نوبت خودکشی تک نہیں پہنچتی تھی۔ تو کیا آزاد بھارت کے حالات اس دور کے حالات سے زیادہ سنگین ہیں؟ اگر ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ادب میں اس سنگین صورتحال کی معمولی جھلک تک نظر نہیں آتی۔ اس پر شاید ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔‘‘
یہاں سلام بن رزاق نے پریم چند کے افسانے ’پوس کی رات‘ کے دور کے حالات کا مقابلہ 21 ویں صدی کے حالات سے کیا ہے۔ آج جہاں ہم ترقی اور خوش حالی کا ڈنکا پیٹ رہے ہیں، وہاں حقیقت کچھ اور ہے۔ آج کے مسائل پریم چند کے زمانے سے زیادہ بھیانک ہو گئے ہیں۔ پریم چند نے اپنے عہد کے مسائل پیش کرکے اپنا حق ادا کیا اور ادب میں امر ہو گئے، لیکن آج کا ادیب موجودہ مسائل سے کیوں دور کھڑا نظر آرہا ہے؟
انتظار حسین کا افسانہ ’مور نامہ‘ کے تجزیے میں سلام بن رزاق لکھتے ہیں:
’’روایت ہے کہ اشوتھاما آج بھی زندہ ہے اور اپنے سڑے گلے بدن کے ساتھ بنوں میں بھٹک رہا ہے۔ انتظار حسین نے اس روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہانی میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دراصل ’ایٹم بم‘ موجودہ عہد کا برھماستر ہے، اسے استعمال کرنے والا اشوتھاما کی طرح انسانی نسل کو قاتل ٹھہرے گا۔ اشوتھاما کو قابل نفرت گردانتے ہوئے افسانہ نگار نے ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کرنے والوں سے بھی نفرت کا اظہار کیا ہے اور آگاہ کیا ہے اس برھماستر کے استعمال سے گریز کرو ورنہ انسانی نسل کی تباہی و بربادی تمہارے سر ہوگی۔‘‘
اور افسانہ پیتل کا گھنٹہ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’قاضی صاحب کا اپنے قریب کے گاؤں کے ساہو کار شاہ جی کو پیتل کا گھنٹہ فروخت کرنا اس بات کا اشاریہ ہو سکتا ہے کہ زمینداری کے خاتمے کے بعد اس کی جگہ ساہو کاری یا نئی سرمایہ داری اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس بات کا ثبوت ہمیں آج اپنے ملک کے جمہوری نظام میں مل جاتا ہے جس پر در پردہ سرمایہ داروں کی بالا دستی ہے۔ یکہ بان کا یہ ادھورا جملہ ’’ہاں وقت وقت کی بات ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ ماضی پر حال کی سبقت کا اشاریہ ہے۔‘‘
مضمون یا تبصرہ کتنا بھی اچھاہو، طویل ہو لیکن وہ ایک اچھی کتاب کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے یہاں بطورِ نمونہ صرف دو تین اقتسابات پیش کئے گئے ہیں۔ جو ہمیں مکمل کتاب کے مطالعے کی دعوت دیتے ہیں۔
کتاب عرشیہ پبلیکیشن دہلی نے شائع کی ہے۔ سرورق خوبصورت ہے۔ کاغذ عمدہ ہے۔ 207 صفحات کی یہ کتاب کی قیمت 200 روپئے ہیں۔ جو عرشیہ پبلیکیشن دہلی اور ملک کے دیگر بک اسٹالوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا