ہندستان کے واسطے کجریوال کی دوبارہ حمایت ضروری ہے

0
0

بی جے پی کی جیت سے اس کی سنگدلی اور شقاوت بڑھ جائے گی

عبدالعزیز

اگر دہلی میں بی جے پی انتخاب میں خدانخواستہ کامیاب ہوتی ہے تو یہ اعلان کرے گی کہ اس کی پالیسیوں اور ’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ کی حمایت میں لوگوں نے بی جے پی کو کامیاب کیا ہے۔ اس سے بی جے پی پہلے سے کہیں زیادہ بے رحمی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرے گی۔ 8فروری 2020ء کو دہلی میں اسمبلی الیکشن ہوگا۔ اروند کجریوال کیلئے یہ الیکشن جیتنا نہایت ضروری ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ ہندستان کیلئے اہم ہے، کیونکہ اس وقت دستور اور جمہوریت فسطائی حکومت اور فرقہ پرست جماعت کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ دہلی میں اسمبلی کی 70 سیٹیں ہیں اور 14 ملین ووٹرز ہیں جو ملک کے 2%ووٹروں کے برابر ہیں اور اس کو مکمل ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے اس کے باوجود دہلی کی جیت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ملک کی راجدھانی ہے۔ بیرونی ممالک کے سفارت خانے یہاں موجود ہیں، میڈیا کا یہاں جمگھٹا ہے اور اس طرح دہلی ہندستان کی کائناتِ اصغر ہے۔ یہ پورے طور پر ہندستان کی سیاست، نظریات، خیالات، مذاہب ، ذات اور تعلقات کا محور و مرکز ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندستان کے موڈ کا یہ پیمانہ ہے اور اس پیمانے سے ملک کے موسم کا حال معلوم ہوتا ہے۔  اس وقت پورے ملک میں بھونچال سا آیا ہوا ہے۔ تنازعات، احتجاج، کشمیر، شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی، این پی آر، یونیورسٹیوں میں ہنگامے، پولس مظالم، یونینوں کے اسٹرائیک اور ہڑتال ان سب ہنگاموں اور احتجاجوں کو مودی حکومت سننے سے قاصر ہے اور حکومت کا حال صمٌ بکمٌ عمیٌ جیسا ہے ۔ یہ حق بات سننے کیلئے بہری، حق گوئی کیلئے گونگی اور حق بینی کیلئے اندھی ہے۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور اس طرح کی بہت سی صفات اس حکومت کا طرۂ امتیاز ہے۔ جو بھی حکومت سے سوال کرتا ہے یا حکومت کے خلاف مظاہرہ و احتجاج کرتا ہے حکومت کے کارندے اور حکمراں جماعت کے لیڈر اسے نکسل ، اربن نکسل اور غدارِ وطن قرار دینے میں ذرا بھی پس وپیش سے کام نہیں لیتے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مہاراشٹر میں حکومت بنانے میں ناکام ہوئی۔ جھارکھنڈ میں اسے بری طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے باوجود بھی اس کی اکڑاور گھمنڈ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ حالات ہیں جن میں کجریوال کا مقابلہ مودی سے ہے۔ دہلی الیکشن مودی کی پالیسیوں پر ریفرنڈم ہوگا۔یہ محض کجریوال کی کارگزاریوں اور کارناموں کا حاصل نہیں ہوگا۔ اس میں ذرا بھی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ یہ الیکشن جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ صرف اس کا فیصلہ نہیں کرے گا کہ کون دہلی کا حکمراں ہوتا ہے ۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا سایہ پورے ملک پر منڈلا رہا ہے۔ کوئی ایسا شہری یا آدمی نہیں ہے جس کے دل و دماغ میں یہ بات گردش نہ کر رہی ہو کہ ملک کا کیا ہوگا اور اس کا کیا ہوگا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالبعلموں پر مودی- یوگی پولس انگریزی راج کی پولس کی طرح حملے کئے اور مظالم ڈھائے۔ یوپی میں سب سے زیادہ پولس کا ظلم و جبر دیکھنے میں آیا۔ پچیس تیس افراد جاں بحق ہوئے۔ سیکڑوں لوگ گرفتار کئے گئے اور ان کو ٹارچر کیا گیا۔ اس وقت جو غم و غصے کی لہر پورے ملک میں دکھائی دے رہی ہے وہ جے پرکاش نرائن کی عوامی تحریک سے کم نہیں ہے۔  سپریم کورٹ میں جو قانونی طور پر چیلنجز کئے گئے ہیں فی الحال سپریم کورٹ کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ کورٹ قومی تحفظ اور حاکمیت کے نام پر معاملے کو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ رافیل جنگی طیارہ کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ٹال دینے میں ہی عافیت سمجھا۔ بہت سے سیاست داں بی جے پی سے مقابلہ آرائی کر رہے ہیں۔ تاجروں میں راہل بجاج اور آنند مہندرا نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ خود مختار ادارے اس وقت حکومت کے نرغے میں ہیں۔ آسام اور بنگال پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظر ہے۔ مودی اور شاہ کی جوڑی ان دونوں ریاستوں پر نظر جمائے ہوئے۔ رائے دہندگان کے اثر کو یہ قبول کرتے ہیں۔ اورصرف بیلیٹ بکس کے پیغام کو سمجھتے ہیں۔ نہ ان کو عدلیہ روک پارہی ہے نہ بین الاقوامی آراء سے ان پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کے مسائل و مصائب سے، نہ ہی ہنگاموں میں لوگوں کی ہلاکت سے، نہ اداروں اور دستور کی پامالی سے۔ دہلی کی ہار سے یقینا ان پر ضرب پڑے گا۔ دوسری جگہوں کی ہار کے مقابلے میں یہاں کی ہار بھاجپا پر اثر انداز ہوگی۔ نتیش کمار،نوین پٹنائک پر بھی اثر پڑے گا جو مودی-شاہ کی جوڑی کی حمایت کر رہے ہیں۔  اس وقت اگر حکومت کی کوئی مخالفت کر رہا ہے تو وہ سول سوسائٹی ہے۔ خاص طور پر ملک کے نوجوان اور طالب علم ہیں۔ اروند کجریوال کو چاہئے کہ رائے عامہ کو اپنے حق میں کریں اور نوجوانوں اور طالبعلموں کے دلوں کو جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی، پانی، تعلیم ، جھگی جھونپڑیوں کی ترقی اور عورتوں کے تحفظ کیلئے کجریوال نے بہت ہی موثر قدم اٹھائے ہیں۔ یہاں تک کہ اس نے کچھ لوگوں کو نامزد کیا ہے۔ جیسے کہ کنہیا کمار کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہلی پولس کے بارے میں کجریوال کا بیان سخت ہوتا ہے۔ وزارتِ داخلہ پر بھی وقتاً فوقتاً حملے کرتے رہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہے۔دہلی میں کجریوال مہاجرین کے مسئلے کو نہیں اٹھاتے۔ یہاں ہندو/ مسلم کا کوئی ایشو بننے سے روکتے ہیں۔ بی جے پی کو یہاں جیتنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کو بھاری اکثریت سے جیتنے کا امکان ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے بی جے پی کا چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ پرائم ٹائم، بی جے پی کا آئی ٹی سیل اور گودی میڈیا روز و شب عام آدمی پارٹی کے خلاف زہر افشانی کرتی رہتی ہے۔ آج کے حالات کے پیش نظر کجریوال کا جیتنا ملک و قوم کیلئے ضروری ہے۔  اروند کجریوال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت اورملک کو بچانے کیلئے بی جے پی کو ہرانا ضروری ہے۔ اگر یہ بی جے پی ملک میں حکومت کرتی ہے تو آمریت بڑھے گی اور ملک کا دستور بدل سکتا ہے اور مودی ہٹلر بن سکتے ہیں۔ لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے کجریوال نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر مودی-شاہ کامیاب ہوئے تو امیت شاہ کو مودی وزیر داخلہ بنائیں گے اور پہلے کے مقابلے میں ظلم دس گنا بڑھ جائے گا۔ کجریوال کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ جوڑی کے مقابلے میں کجریوال زیادہ پڑھے لکھے ہیں، سنجیدہ ہیں اور حکومت کرنے کے قابل ہیں۔ دہلی کے عوام کو انھوں نے کافی راحت پہنچائی ہے۔ عوام بھی کجریوال یا ان کی حکومت سے مطمئن ہیں۔ کانگریس کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ بی جے پی کو کامیابی نہ ملے۔ اگر اس کا رویہ ایک دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کا ہو تو یہ رویہ یا یہ مقصد بہت معمولی اور بے معنی ہوگا۔ کجریوال لوک سبھا الیکشن کے موقع پر مل کر الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ کسی وجہ سے دونوں پارٹیوں میں اتحاد نہیں ہوسکا۔ اس الیکشن میں بھی سمجھوتہ ہونے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ الیکشن کے دن بہت کم رہ گئے ہیں، پھر بھی سماجی انجمنوں کی طرف سے دونوںپارٹیوں پر زور ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں میں کوئی نہ کوئی مفاہمت اور سمجھوتہ ہوجائے تاکہ بی جے پی کی ہار پکی ہوجائے۔ امید ہے کہ کچھ لوگوں کی کوشش جو کانگریس اور عام آدمی پارٹی کیلئے قابل اعتماد ہیں بار آور ثابت ہوسکتی ہے۔ (یو این این)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا