کشمیر میں سخت سرما نے ‘دائی جنائی’ نظام کی ضرورت پیدا کردی

0
0

یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں حالیہ بھاری برف باری سے جہاں شہر و دیہات کے لوگوں کو گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی متعدد حاملہ خواتین کو پیش آئے بے بیان مشکلات سے زمانہ قدیم کی طرح ‘دائی جنائی’ نظام کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔بتادیں کہ وادی میں حالیہ بھاری برف باری کے دوران کئی دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی متعدد حاملہ خواتین کو متعلقہ پی ایچ ای سینٹروں پر زمانہ قدیم کی طرح شدید سردی اور بھاری برف باری کے بیچ چارپائیوں میں پہنچایا گیا۔وادی کے مختلف دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے دور دراز علاقوں میں سیال کے دوران بھاری برف باری ہونے سے مریضوں بالخصوص حاملہ خواتین کو بے بیان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے پیش نظر زمانہ قدیم کی طرح ‘دائی جنائی’ نظام کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا: ‘وادی میں موسم سرما کے دوران دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی حاملہ خواتین کی زندگیاں اس وقت خطرے میں پڑ جاتی ہیں جب وہ درد زہ میں مبتلا ہوجاتی ہیں لیکن سڑکیں زیر برف ہونے کے باعث انہیں ہسپتالوں تک پہنچانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا ہے جس کے پیش نظر وادی کے کم سے کم دور دراز علاقوں میں زمانہ قدیم کی طرح دائی جنائی نظام کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے’۔محمد یونس نامی ایک شہری نے کہا کہ حکومت جہاں حاملہ خواتین کے زچہ و بچہ کے تحفظ کے لئے کافی پیسہ خرچ کرتی ہے وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہر گائوں کی ڈسپنسری میں ایک دائی جنائی کی تقرری عمل میں لائے۔انہوں نے کہا: ‘حکومت حاملہ خواتین کے زچہ وبچہ کے تحفظ کے لئے کافی پیسہ صرف کررہی ہے لیکن یہاں موسم سرم میں جب بھاری برف باری ہوجاتی ہے تو دور افتادہ علاقوں کا ضلع صدر مقامات کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے جس کے باعث حاملہ خواتین کے مشکلات بڑھ جاتے ہیں اس کے پیش نظر حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر گائوں کی ڈسپنسری میں ایک دائی جنائی کی تقرری عمل میں لائے اور اس کو باقاعدہ تربیت دی جائے تاکہ وہ حاملہ خواتین کی مدد کرسکے’۔محمد یونس نے کہا کہ اگرچہ سرکار نے آشا ورکروں کی تقرری عمل میں لائی ہے لیکن وہ حاملہ خواتین کو ہسپتال لانے لے جانے میں کام آتی ہیں نہ کہ گھر میں درد زہ کے دوران ان کی کوئی مدد کرسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن خواتین کو اس معاملے کی خاندانی طور پر کوئی مہارت ہو تو ایسی خواتین خواہ وہ ناخواندہ ہی کیوں نہ ہو، کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔وسطی ضلع بڈگام کے ایک دور افتادہ گائوں کے رہنے والے محمد یوسف خان نامی ایک شہری نے کہا کہ اگر پرانے زمانے میں حاملہ خواتین کو ہسپتال پہنچانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی تو آج ایسی ضرورت کیوں آن پڑتی ہے۔انہوں نے کہا: ‘میری اہلیہ امید سے تھی، گھر سے ہسپتال قریب پندرہ کلو میٹر دوری پر واقع ہے بھاری برف باری کی پیش گوئی کے پیش نظر میں ایک ہفتہ قبل ہی ہسپتال کے متصل اپنے ایک رشتہ دار کے گھر اپنی اہلیہ کو لے کر رہائش پذیر ہوا تاکہ کوئی مشکل پیش نہ آئے اگر پرانے زمانے میں یہ کام دائی جنائی انجام دیتی تھیں تو آج کل ایسا کیوں نہیں ہوسکتا’۔محمد یوسف نے کہا کہ سرکار کو چاہئے کہ وہ آشا ورکروں کے طرز پر دائی جنائیوں کی خدمات حاصل کرے کیونکہ آشا ورکروں سے بھی زیادہ ان ہی کی ضرورت ہے۔ایک اور شہری، جس کی اہلیہ نے کچھ برس قبل گھر ہی میں ایک بچے کو جنم دیا، نے کہا کہ سرکار کو چاہئے کہ وہ گائوں میں دائی جنائی کو تلاش کرکے ان کو معقول تنخواہ دے کر ان کو مزید تربیت دے تاکہ وہ دیہات میں اپنا کام انجام دے سکیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی بھی کئی دیہات میں دائی جنائی موجود ہیں جو یہ کام انجام دے سکتی ہیں اور دیگر خواتین کو بھی تربیت دے کر اس کام کی ماہر بنا سکتی ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر دائی جنائی کے نظام کو دوبارہ بحال کیا گیا تو نہ صرف حاملہ خواتین کی زندگیاں محفوظ ہوسکتی ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی گوناگوں پریشانیوں سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا