بیٹی خداکی رحمت ہے- اس کی قدر کیجئے!!!! 

0
0
بیٹیاں خداے پاک کی رحمت ہیں انہیں حقیر مت جانیے – عالم کائینات وجود زن سے ہے قائیم – لیکن ان کی زات سے اج جس قدر والدین بھی آنکھیں چرارہے ہیں وہ ایک سوالیہ نشان ہے – جس کا جواب آج نہیں تو کل ضرور دیناہوگا – یہی پر بس نہیں ہماری سرکار بھی بیٹیوں کے حقوق کو لیکر ایوان بالا اور ایوان زیریں یاعوامی اجتماعات میں بڑے بڑے لمبے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ہم بیٹیوں کے حقوق ان کی تعلیم کو لیکر فکر مند ہیں – لیکن ایک طرف تو سرکار کے یہ نعرے ہیں کہ بیٹی پڑہاؤ بیٹی پچاؤ لیکن اور دوسری جانب بیٹیوں کے ساتھ اچھاسلوک نہیں ہوپارہاہے-  اور اگر اس نعرے کو زمینی سطح پر دیکھا جائے تو یہ نعرے زمینی سطح پر بھی کھوکھلے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ بیٹیوں کے ساتھ سوتیلہ سلوک ہو رہا ہے اور دن بدن ناانصافیاں ہو رہی ہیں۔ بیٹیوں سے ان کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ایک بیٹی کو آج تک بیٹی ہونے کا حق نہ مل سکا چھوٹی بچیاں سکولی تعلیم کے بجائے گھریلو کاموں میں مصروف جس بیٹی کو بھارت کی شان سمجھا جارہا ہے وہ بیٹیاں دھکے خاتی چلی جارہی ہیں۔ اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اپنی حوث کا شکار بنایا جا‌ رہا ہے۔ ناجانے ایک دن میں کئی بچیوں کو اپنی حوث کا شکار بنایا جاتا ہے۔ لیکن بیٹیوں کی زندگی برباد کرنےپ والے شرے آم گھوم رہے ہیں۔ بیٹیوں کی زندگی جہنم سے بھی بتر ہو گئی ہے۔ کبھی اس بیٹی کو گھر سے پریشان کیا جاتا ہے اور کبھی اس بیٹی کو سسرال سے مار بٹائی خانی پڑھتی ہے۔ لیکن ان کے مجرموں کو کبھی کوئی پوچھ تاچھ کرنے والا نہیں آخر کار کب تک بیٹیاں ظلم و ستم سہتی رہے گی۔ آخر کار ان کے مجرم کب تک کھولے آم سڑکوں پر گھومتے رہے گے۔ اگر سرکار کی طرف سے بیٹیوں کے لئے دن بدن نئی نئی قانونیں لاگوں کی جارہی ہیں۔ تو وہ قانون کاغذوں تک ہی محدود کیوں رہتا ہیں۔ ایسے قانون کو زمینی سطح پر لاگوں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور اگر کوئی قانون بنا ہے تو کیا وہ قانون صرف شہر میں رہنے والی بیٹیوں کے لئے بنایا گیا ہے کیا یہ قانون گاؤں کی بیٹیوں کے لئے نہیں آخر کار گاؤں کی بیٹیوں کے ساتھ اتنی ناانصافی اور سوتیلہ سلوک کیوں۔ ؟ چندہ ماں باپ تو ایسے بھی ہیں جو کہ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں میں فرق محسوس کرتے اور بیٹیوں کو ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو کہ بیٹیوں کو اپنے سر کا بوجھ سمجھتے ہیں اور اپنی ننی نابالغ بچیوں کی شادیاں تک کروا دیتے ہیں لیکن ان کو تب بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جن بیٹیوں کے پڑھنے لکھنے کے دن ہوتے ہیں ان کی شادیاں کروا کر اپنے سر سے بوجھ حلقہ کر دیتے ہیں۔ کیا ایسے ماں باپ کے لئے کوئی قانون نہیں جن بیٹیوں کے کھیل کودنے کے دن ہوتے ہیں ایسے نابالغ بچیوں کی شادیاں کروا دی جاتی ہیں۔ اور ماں باپ کرے بھی تو کرے غریبی اتنی ہے کہ اپنا بیٹ بھرنا بھی ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ بیٹیوں کے نام اسکیموں اور ان کے نام سے آنے والے پیسے دفتر میں بیٹھے لوگ و بڑے بڑے لیڈر ہڑپ کر لیتے ہیں۔ تو غریبی کے مارے ماں باپ کو اپنی ذمہ داری  ادا کرنی پڑھتی ہے۔ حالانکہ جتنا حق بیٹوں کا ہے اتنا ہی حق بیٹیوں کا ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ ایسا کچھ کہی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ کئی جگہ تو بیٹیوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اور دوسری جانب مرکزی سرکار کے بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کے نارے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ ناجانے کب تک اس دیش میں بیٹی کے ساتھ انصاف ہو گا ناجانے کب ان بیٹیوں کو ان کا حق ملے گا۔ یاد رہے یہاں صرف کھوکھلے دعوے اور کھوکھلے وعدے کئے جاتے ہیں اور یہاں بیٹیوں کے ساتھ ناانصافیاں کی جاتی ہیں نا کہ بیٹیوں کو ان کا حق دلیا جاتا ہے۔ بیٹیوں کے حق کی بات کرنے والے ہی بیٹیوں کے ساتھ ہی بُرا سلوک اور ان کا حق چھین لیتے ہیں۔یاد رہے بیٹا اگر ایک گھر کا چراغ ہے تو بیٹی دو گھروں کی چراغ ہے۔ بیٹی جب پیدا ہوتی ہے تو وہ والدین کے لئے رحمت بن کر آتی ہے۔ جب وہ بلوغت کو پہنچتی تو نکاح کے بعد اسے بیوی کا درجہ ملتا ہے۔ اس کے بطن سے بچہ پیدا ہوتا ہے  تو اسے ماں کا متبرک درجہ نصیب ہوتا ہے۔ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو والدین بیٹیوں پر ظلم کرتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے لئے فرمایا تھا کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے وہ بھی ایک بیٹی تھیں۔ اسلام میں بیٹی کا مقام بیٹی کی عزت بیٹی کی زینت کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔ چودہ سو سال پہلے اسلام نے بیٹی کے مقام کو واضح طور پر بتا دیا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس کی ایک بیٹی یا دو بیٹیاں تین بیٹیاں ہوں ان کی فلاح بہبود ان کی تعلیم و تربیت اسلام کے مطابق کر کے جب وہ ان کو نکاح کر دیتا ہے  تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن  وہ شخص ان انگلیوں کی طرح میرے ساتھ اس طرح جنت میں ہوگا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے ساتھ رحم وکرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا؛ اس کوقعر مذلت سے نکال کر عزت ووقار کا تاج پہنایا، بیٹی ماں، بہو، ساس ، بیوی وغیرہ کی شکل میں اس کے حقوق عنایت کیے ، اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا، اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کو جنت کا وسیلہ اور ذریعہ فرمایا، یہ صنف نازک کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم کا طرز وعمل تھا۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ بیٹیوں کا حق انہیں دیاجاے- اس کے ساتھ ساتھ جو والدین بیٹا اور بیٹی کو دو نظروں سے دیکھتے ہیں وہ دو نظر سے نہیں بلکہ ایک نظر سے دیکھیں۔ اور بیٹیوں کو تعلیم سے دور نہ رکھیں جو حق بیٹوں کو دیا جاتا ہے وہی حق اپنی بیٹیوں کو بھی دیں۔ بیٹا تو ایک گھر کو آباد کرتا ہے لیکن بیٹیاں دو گھروں کو آباد کرتی ہیں بیٹی رہم دل ہوتی ہے بیٹے کو تو والدین کے ساتھ جس قدر پیار ومحبت ہوناچاہیے وہ اج کے دور میں تو دیکھنے کو نہیں ملتاہے- مگر بیٹی دوسرے گھر کی رونق بن جانے  کے بعد بھی اپنے ماں باپ کو نہیں بھول پاتی ہے- اور ان کا پیار ہمشہ اس بیٹی کے دل میں رہتا ہے۔ مگر افسوس اسی بیٹی کے ساتھ سوتیلہ سلوک اتنا ظلم و ستم اتنی ناانصافیاں مگر تب بھی بیٹی اپنی زبان سے اوف تک نہیں کرتی لہزا سبھی ماں باپ کو چاہئے کے اپنے اولاد میں دو نظریں نہیں بلکہ ایک نظر رکھیں جو حق ایک بیٹے کو دیا جاتا ہے وہی حق بیٹی کو بھی دینا ضروی سمجھیں۔ اتنا کرناتو بہت ہی آسان ہے جتنا اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دی ہے- بچپن میں اچھی طرح پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کا خاص خیال رکھاجاے – اسلامی نقطہ نظر سے انکی تربیت والدین کا بنیادی حق ہے- اگر اس حق میں کوتاہی ہوگی تو قیامت میں پکڑ سے والدین بچ نہیں سکیں گے- بلوغت کے بعد اس کا نکاح دین دار ایماندار متقی اور پرہیز گار کے ساتھ کرناچاہیے مال ودولت میں کم ہی کیوں نہ ہو – اپنی وراثت میں انہیں بھی حقدار بناو. صرف دہیج کے نام پر چند چیزیں دیکر اپناپلہ مت چھوڑاو یہ بیٹیاں قیامت میں بھی اپنے حق کا مطالبہ کریں گی- قیامت میں اگر سرخروئی چاہتے ہوتو اپنی بیٹیوں کا ساتھ انصاف کا معاملہ کیجیے- بیٹیاں خدا کی رحمت ہیں انہیں تنگ نظری سے پیش آناچھوڑ دیں جب والدین اپنی بیٹیوں کے ساتھ عدم روادی ترک کردیں گے تو بہاریں پھر سے لوٹ آئیں گی اس چمن میں – سب بادل چھٹ جائیں گے اس دہہر سے –
عرفان مغل سہڑی خواجہ منڈی پونچھ جموں وکشمیر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا