اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام لال قلعہ کے سبزہ زارپرتاریخی مشاعرہ جشن جمہوریت کاانعقاد
ہندوستھان سماچار؍اویس
نئی دہلی؍؍اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام تاریخی مشاعرہ جشن جمہوریت لال قلعہ کے سبزہ زار پر منعقد ہوا۔مشاعرے کاباقاعدہ آغاز قومی گیت ،قومی ترانہ اورحب الوطنی سے لبریزدیگرگیتوں سے ہوا۔اس معروف اورتاریخی مشاعرے کی صدارت معروف شاعراظہرعنایتی نے کی۔مشاعرے کے مہمان خصوصی جامعہ ہمدردکے وائس چانسلر پروفیسرسیداحتشام حسنین اورمہمان اعزازی محکمہ فن ،ثقافت والسنہ کی سکریٹری محترمہ منیشاسکسینہ تھیں۔اس تاریخی مشاعرے میں ہندی اکادمی کے سکریٹری جیت رام بھٹ بھی موجودتھے۔مشاعرے کی ابتدائی نظامت اطہرسعیداورمشاعرے کی نظامت ابرارکاشف نے کی۔تمام مہمانوںاورشعراکااستقبال اردواکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول اورسکریٹری ایس ایم علی نے گلدستے پیش کرکے کیا ۔اردواکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسرشہپررسول نے شعرا، مہمانان اور سامعین کا استقبال کرتے ہوئے کہاکہ واقعہ یہ ہے کہ جولوگ شاعری سے پیارکرتے ہیں وہ یہاں موجود ہیں ،اس مشاعرے کی روایت کافی پرانی اورشاندارروایت ہے۔مشاعروں نے گنگاجمنی تہذیب کوفروغ دیاہے۔لال قلعے کے مشاعرے کی تاریخ بھی کافی قدیم اوراہم ہے ۔آزادی کے ساتھ ہی اس مشاعرے کاآغازہوگیاتھا۔ 1983سے اس مشاعرے کی ذمہ داری اردواکادمی،دہلی نبھارہی ہے ۔آج کے اس مشاعرے کے انعقادمیں کافی محنت کی گئی ہے، چوں کہ دہلی میں ضابطہ اخلاق نافذ ہے مجھے امیدہے کہ شعراسیاست کے حوالے سے کوئی شعرنہیں پیش کریں گے تاکہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ ہو۔مہمان خصوصی پروفیسرسیداحتشام حسنین ،وائس چانسلر،جامعہ ہمدردنے کہاکہ مجھے بڑافخر ہے کہ میں آج یہاں آپ سب کے سامنے کچھ کہنے آیاہوں۔اس تاریخی مشاعرے میں دہائیوں پہلے میں نے کیفی اعظمی،جاں نثاراخترجیسے بڑے شعراسے ان کے اشعارسنے تھے۔یہ مشاعرہ برصغیرکاتاریخی،اہم اورسب سے بڑامشاعرہ ہے ۔اس مشاعرے کی روایت کاسلسلہ آخری مغل تاجدار بہادرشاہ ظفرسے شروع ہوتاہے۔ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب آج بھی مضبوط ومستحکم ہے اورہمیشہ رہے گی۔آج بھی ہندوستان میں گنگاجمنی تہذیب کے فروغ وارتقاکے لیے جان کی بازی لگانے والے ہندوستانی موجود ہیں۔میں پروفیسرشہپررسول،وائس چیئرمین اردواکا دمی،ایس ایم علی،سکریٹری اردواکادمی اور اردواکادمی کامیں شکریہ اداکرتاہوں کہ آپ نے مجھے یہاں مدعوکیااورمجھے یہاں اپنے شعراکوسننے اورکچھ بولنے کاموقع مل رہاہے ۔اس موقع پراردواکادمی کی گورننگ کونسل کے تمام اراکین اورمعززین شہر بھی موجودتھے ۔قومی مشاعرے میں پیش کیے گئے چندمنتخب اشعارحاضرہیں۔
جوباقی رنگ ہیں وہ کیاکریں گے
فضاسب زعفرانی ہوگئی ہے
اظہرعنایتی
بات اڑنے کی جوکی توپرندو!
کاٹ دیے جائیں گے پربھی
وقارمانوی
اگرمجھ کوقلم زدکررہے ہیں
وہ اپنے آپ کوردکررہے ہیں
رؤوف خیر
چارہ گر!کچھ توبتادے مرہموں کی آس میں
کب تلک ہم ناخنوں کی نازبرداری کریں
عالم خورشید
اس شہرکے لوگوں سے اگربات کروگے
محسوس یہ ہوگاکہ پریشان بہت ہیں
منظربھوپالی
کوشش یہ زیادہ سے نہ کچھ کم سے ہوئی ہے
تعمیروطن میں سے نہیں،ہم سے ہوئی ہے
کلیم قیصر
خواب کیادیکھیں تھکے ہارے لوگ
ایسے سوتے ہیں کہ مرجاتے ہیں
شکیل اعظمی
ایک قطرہ ہی سہی آنکھ میں پانی تورہے
اے محبت ترے ہونے کی نشانی تورہے
راشدانورراشد
میں ترے خواب واپس کررہاہوں
مری آنکھوں میں گنجائش نہیں ہے
ابرارکاشف
کاغذی صبح لیے پھرتے ہوگلیوں گلیوں
کیاتماشاہواگرلوگ جلانے لگ جائیں
اخترجمال
لبوں پہ مسکراہٹ اورآنکھیں نم بھی رکھتے ہیں
متاعِ زندگی میں ہم شعورغم بھی رکھتے ہیں
سکندرمرزا
جولمحہ زندگی کابسرکررہے ہیں ہم
اک معرکہ حیات کاسرکررہے ہیں
متین امروہوی
میں اک چراغ کتنے چراغوں میں بٹ گیا
رکھاجب آئینوں نے کبھی درمیاں مجھے
سیماب سلطان پوری
زندگی بھرمخالف رہے،موت نے اک جگہ کردیا
اے زمیں تری آغوش میں دوست دشمن ہیں لیٹے ہوئے
شاہدانور
مجھ سے ٹکراتی رہی میں اس سے ٹکراتی رہی
میں بھی کب مانی علیناجب نہیں مانی ہوا
علینہ عترت
اس دورکے انسان کتابوں میں اچانک
بھائی کوپھنسانے کی دعاڈھونڈرہے ہیں
اچانک مئوی
میں تومشاعروںمیں رہااوربیویاں
دوآرزومیں مرگئیں دوانتظارمیں
سکندرحیات گڑبڑ
تم جوہوتے توبات کچھ ہوتی
اب کے بارش توصرف پانی ہے
چاندنی پانڈے
آج پھران کے آنے کی آئی خبر
آج پھردن نکل آئے گارات میں
رعنازیبا
مری فطرت سے زمانے کوعداوت ہے بہت
مری فطرت سے مگرسچ کی حفاظت ہے بہت
سیف بابر
سزائے موت دے دیتے کبھی ہم غم نہیں کرتے
خوشی سے جان دے دیتے یہ آنکھیں نم نہیں کرتے
سنجے جین
یہ توبتاپھرمری آنکھیں ساون کیوں برساتی ہیں
توتویہ کہتاتھانجومی اب کے برس برسات نہیں
ثمربچھرایونی