مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کا سوال

0
0

 

ہندوستان میں آج سے نہیں کافی عرصہ سے اس پر بحث ہورہی ہے کہ مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھا جائے، بابائے قوم مہاتما گاندھی تو اس کے حامی نہیں تھے لیکن دوسرے قومی رہنما جب بھی فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھاتے تو مذہب و سیاست کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ور ہندوستانی قوم کو اس بات کا احساس دلاتے کہ سیاست میں مذہب کی آمیزش ملک و قوم کے لئے مہلک ہوگی۔ ویسے ہندوستان جیسے مختلف مذاہب کے ملک میں جہاں متعدد مذہبوں کے ماننے والے آباد اور مذہبی اقلیتیں موجود ہیں وہاں سیاست کو مذہب سے الگ تھلگ رکھنا بہتر ہے، ہمارے ملک نے جس سیکولرازم کو اپنایا ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ حکومت کسی مذہبی عقیدے اور طریقہ عبادت سے سروکار نہیں رکھے گی۔ نہ مذہبی بنیاد پر حکومت اپنے شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک اپنائے گی۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو اکثریت جو عام طور پر جمہوری ملکوں میں حکمرانی کرتی ہے اس کا مذہبی غلبہ ہونے کا خطرہ ہے اور اس وقت بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، مسلمانوں نے مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لئے اسی مقصد سے جد و جہد کی تھی کہ اگر اس کی جگہ یکساں سول کوڈ نافذ ہوگیا تو اکثریتی فرقے کے مذہبی عقائد نیز رسومات کو اقلیتوں پر لاد دیا جائے گا۔ اس طرح کی کوششیں دوسری سمتوں سے بھی ہورہی ہیں۔ مثلاً ہندوستان کی ایک مقبول عام زبان اردو کو صرف اس جذبہ سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس زبان نے ملک کی تقسیم میں حصہ لیا تھا۔ حالانکہ واقعتا یہ بات غلط ہے، کیونکہ اردو زبان پاکستان کے کسی صوبے کی مادری زبان نہیں، اردو پر حملہ اس لئے کیا گیا کہ اس میں مسلمانوں کا مذہبی سرمایہ بڑی تعداد میں عربی اور فارسی سے منتقل کر لیا گیا ہے اور اسی لئے اردو مسلمانوں کی تہذیبی اور دینی شعائر کی علامت بن گئی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اردو زبان کی جتنی خدمت مسلمانوں نے کی اتنی ہی ہندوؤں کی طرف سے بھی ہوئی ہے۔ ایک دور میں مسلمانوں کی دینی اور علمی کتب اردو میں سب سے زیادہ جس ادارے نے شائع کی تھیں وہ لکھنؤ میں منشی نول کشور کا مطبع تھا۔اکثریت اقلیت پر غلبہ نہ حاصل کر لے اور اقلیت کا تہذیبی، مذہبی اور لسانی تشخص ختم نہ ہوجائے اس کے لئے ہی جدید ہندوستان کے معماروں نے سیکورازم کے نظریہ کو اپنایا لیکن سیکولرازم کی سب سے زیادہ ضرورت ملک کی اقلیتوں کو ہے۔آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام نے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے جو لائحہ عمل مرتب کیا وہ فرقہ وارانہ سیاست سے دوری پر مبنی تھا کیونکہ انہوں نے آزادی سے قبل کی فرقہ وارانہ سیاست کا انجام دیکھ لیا تھا۔ اس وقت سے آج تک مسلمان مشترکہ قومی سیاست میں حصہ لیتے رہے اور ان میں کسی بھی فرقہ پرست پارٹی کو مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی جو ایک صحت مند علامت ہے، مگر بدقسمتی سے دوسرے اس اصول پر گامزن نہیں ہوئے اور انہوں نے سیکولرازم کی آڑ میں فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینی شروع کردی۔ اقلیتوں کو کبھی زبان، کبھی تہذیب اور کبھی ان کی مذہبی عبادت گاہوں پر قبضہ کے سوال پر پریشان کیا جانے لگا، حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ سیاست کو مذہب سے اور مذہب کو تعصب سے پاک رکھا جاتا، فرقہ وارانہ فسادات پر روک لگائی جاتی اور اقلیتوں کی تمام شکایات پر ہمدردی سے غور کرکے ان کو دور کیا جاتا۔ مگر یہ تو نہ ہوا جب فرقہ پرست طاقتیں مذہب کا سیاست میں استعمال کرکے کافی طاقتور ہوگئیں اور ان سے اقتدار کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا تو سابق حکمرانوں کو ہوش آیا۔اس لئے ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر ملک کی سیکولرپارٹیاں فرقہ پرستی پر حملہ کرنا چاہتی ہیں تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فرقہ پرست عناصر کو منہ لگانا چھوڑ دیں۔ تمام کٹر فرقہ پرست جماعتوں پر لگام عائد کی جائے اور یہ اعلان بھی ہو کہ ’’جو کام کسی دوسرے فرقہ کی دل آزاری، ایذا رسانی اور نقصان کا باعث ہو یا جس سے نفرت، حقارت اور عداوت کے جذبات بھڑکیں وہ فرقہ پرستی ہے جس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس اپنے فرقہ کی بھلائی کے لئے کام کرنا فرقہ پرستی نہیں اس لئے اس کی سب کو اجازت ہوگی۔‘‘ عارف عزیز(بھوپال)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا