رئیس صدّیقی کی چھوٹے بچوں کے لئے بڑی کتابیں

0
0

انور شمیم انور فیروزآبادی

ایک مہذب اور صاف ستھرے سماج اور ملک و ملت کے زریں مستقبل کے لیے ادب اطفال کی جتنی ضروت ہمیں کل تھی، آج بھی ہے، بلکہ کل سے زیادہ آج ہے۔ لیکن ادب اطفال کی حرماں نصیبی یہ ہے کہ اس موضوع کو جس درجہ اہمیت ملنی چاہیے تھی، افسوس اسے کبھی نہ مل سکی۔ جملہ وجوہات میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں بچوں کے لکھنے والے ادیبوں کو ادب میں (اردو ادب نوازوں میں بھی) وہ مقام نہیں دیا جاتا جو غیر ممالک کے ادب میں ادب اطفال کے ادیبوںکو حاصل ہے۔ اس کے باوصف،کچھ شعرا  ومصنفین نے عملی طور پر اپنی ذمہ داری سے اپنے فرض کی انجام دہی میں پورا پورا حصہ لیا۔ شعرا نے عمدہ نظمیں اور مصنفین نے اچھی اچھی کہانیاں تخلیق کیں، لیکن بدلتی ہوئی قدروں کے اس دور میں نونہالانِ وطن کے لیے لکھنے والے ادیبوں کی ذمہ داری پہلے سے بڑھ گئی ہے۔جب کہ ادب اطفال کی تخلیق پہلے سے کم بلکہ بہت کم ہوگئی ہے۔ خصوصاً اردو ادبِ اطفال میں، جس کے سبب بچوں کی ذہن سازی و تربیت میں شائستگی اور خودداری میں کمی آئی ہے۔ اردو  ادب اطفال  کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے لیکن بڑھتے ہوئے ان اندھیروں میں بھی روشنی کے دھارے انہی اندھیروں سے مسلسل محو جنگ دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میںایک نام رئیس صدیقی کا ہے۔             رئیس صدیقی  ایک باشعور و عمیق النظر شاعر بھی ہیں۔ ان کی مرصع غزلیات ملک و بیرون ملک کے رسائل میں ممتاز مقام پاتی رہتی ہیں۔ تاہم ادب اطفال سے انہیں خصوصی لگائو ہے۔ حالانکہ ان کی شدید مصروفیات کے باوجود ان کے گل فشاں قلم سے نو نہالانِ وطن کے لیے تعمیری اور دلچسپ کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں، جن سے بچے خاصے محظوظ ہوتے ہیں۔       بچوں کے نئے اور پرانے قلم کاروں سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’جان پہچان‘  ایک علاحدہ اور انوکھا لطف دینے والی کتاب ہے۔ اس سے قبل،  اچھا خط کیسے لکھیں ؟   (فنِ خطوط نگاری)،  اردو  لرننگ کورس (ہندی سے  اردو سکھانے کی مکمل گائڈ)   زبانِ اردو (قاعدہ) زبان اردو  (حصہ اول) زبان اردو (حصہ دوم)  شیروں کی رانی  ،   ننھا بہادر،  شیرازی کہانییاں او ر  باتونی لڑکی  وغیرہ ۔ غرضیکہ درجن بھر سے زیادہ کتابیں ہیں۔ نیز رسائل میں شائع ہوئے منظور و منشور مضامین مستزاد ہیں۔ رئیس صدیقی نے جاگتے ہوئے ذہن کے ساتھ ادب اطفال کے سفر میں جابجا خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی کہانیوں میں وعظ و پند کا شور نہیں بلکہ دوستی اور خلوص کی دھیمی دھیمی اور بھینی بھینی مہک ہے۔ ان کی تحریر میں مجموعی طور پر بچوں کی زبان سے بھی پوری پوری آگہی پائی جاتی ہے جس کے سبب ان کی کہانیوں میں اصلیت اور تاثیر بھرنے کا سلیقہ بھی بولتا محسوس ہوتا ہے لیکن اسی کے ساتھ اپنی کہانی میں اصلیت اور تاثیر بھرنے کا ایسا جنون بھی نہیں کہ ان کا بیان سپاٹ پن کا شکار ہوجائے۔ ہر حال میں ان کا قلم تابع اعتدال ہی رہتا ہے۔   عام کہانیوں کے مقابلے،  ان کی کہانیوں کو درجہ اسناد اس لیے بھی حاصل ہے کہ ان کے یہاں لفظیات کے پھولوں سے کشیدہ کئے گئے عطر کی جو خوشبو ہے ،وہ بڑی خوشگوار ا ور  دل نواز ہے جس کے باعث ان کا اسلوب مزید تازگی اور شادابی کا حامل بن گیا ہے۔      رئیس صدیقی کی کہانیوں میں کردار نگاری کی جو دلکش جگمگاہٹ ہے، اس کا تعلق صرف کہانیوں سے نہیں ، زندگی کی سچائیوں سے بھی اس کی گہری وابستگی ہے۔ اسی لیے ان میں محض کاغذی زیب و زینت نہیں بلکہ زندگی کے مشاہدات کا نور بھی جلوہ ریز ہے اور جذبات کی صداقت بھی۔ مثلا کتاب ’ننھا بہادر‘ کی افتتاحی کہانی جس کا عنوان ہے۔ ’ننھا بہادر‘ اور دوسری کہانی ’دلیر انسان‘ دونوں کہانیوں میں اصلیت بھی ہے، زندگی کی سچائی اور مشاہدات کا نور بھی ہے، نیز زندگی کی قابل قدر سچائی اور لائق تحسین جذبات کی صداقت بھی ، لیکن بشمول ان کی ان دونوں کہانیوں کے ان کی ساری کہانیوں کا قابل تعریف پہلو ، کہانیوں کا اختصار بھی ہے۔ کیوںکہ لمبی لمبی کہانیوں کا وہ زمانہ اب نہیں۔اب تو بچے لمبی لمبی کہانیوں سے  اوب جاتے ہیں۔ اس لیے بچے چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ایک طویل کہانی کے مقابلے تین مزیدار کہانیاں اچھی رہیں گی۔ ان مختصری کہانیوں کا ایک افادی پہلو یہ بھی ہے کہ مختصر کہانی انہیں حفظ بھی ہوجاتی ہے اور بچوں کا وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے۔ گویا آم کے آم گٹھلیوں کے دام ،  ایک ٹکٹ دو مزے کے مصداق ہے ا ور یہ ایک بڑی بات ہے۔ کیوں کہ رئیس صدیقی نے یہ چیلنج قبول کیا کہ یہ زمانہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ اس مقناطیسی کشش میں بچوں (اور بڑوں میں بھی) الیکٹرانک میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ دور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تفریح کا خواہشمند ہے۔ مثلاًکرکٹ دیکھنے کے شیدائی بھی پانچ روزہ کرکٹ میچ دیکھتے دیکھتے اوب جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے 50-50  اورز  پر مشتمل ایک روزہ (ون ڈے میچ) جو اپنے اختصار کے باعث زیادہ بہتر اور مسرت آگئیں محسوس ہوتا ہے، جب کہ ٹونٹی ٹونٹی(20-20)اورز  پر مشتمل میچ اس سے بھی زیادہ نشاط انگیز اور خوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرز و انداز پر رئیس صدیقی کی کہانیاں ہیں۔ جو الف لیلہ، ہزار داستان سے زیادہ ناول اور ناول سے زیادہ افسانہ اور افسانے سے بھی زیادہ مختصر لیکن زیادہ دلچسپ اور لطف آگیں ہوتی ہیں اور پڑھنے والوں کا وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے۔     رئیس صدیقی نے سارے حقائق پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے بچوں کے ادب کی  ایک نئے انداز کی تعمیر و تشکیل کی اور ایک خاص انداز کے ساتھ بچوں کے ادب کا ایک مستحسن سلسلہ شروع کیا اور ان کی عملی جدوجہد رنگ لائی ۔یہ مختصر کہانیاں بچوں میںمقبولیت پانے لگیں۔             میری نظر میں ان کی کتابوں کی خوبی اور بھی ہے، جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ ان کا خلوصِ دل ان کی ہر کتاب میں بولتا محسوس ہوتا ہے۔ کہانی کار کو کم سے کم الفاظ کا سہارا لے کر اپنی بات کو  پوری کرنے پر مکمل عبور حاصل ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو کہانی کو اختصار اور تاثیر عطا کرتی ہے۔ ہر اچھی کہانی میں موضوع کی زبردست اہمیت ہوتی ہے۔ کہانی کی پہلی دوسری سطور سے ہی تجسس کی فضا قائم کردی جاتی ہے۔ کہانی کے اختتام میں قاری کے ذہن و دل پر چونکا دینے والی ایک دلکش معنوی خوشبو کی کشش چھا جاتی ہے۔ میں کہانیوں کی چاروںکتابوں میں شامل ہر کہانی کو لائق تحسین سمجھتا ہوں۔ انکی ہر کہانی  ہر اعتبار سے دلچسپ اور مکمل ہوتی ہے۔              مین دعاء گو  ہوں کہ  وہ ہمیشہ اسی طرح کی کہانیاں تخلیق کرتے رہیں ۱

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا