حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

0
0
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
فسطائی طاقتوں کے ظالمانہ قانون کے خلاف ملک کے طول وعرض میں احتجاج کی لہریں جس قدر شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں، آزادی کی چنگاریاں جس طرح شعلوں میں بدل رہی ہیں، آمریت کے خلاف انقلابی آواز میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی قدر انسانیت کی روح سے ناآشنا اور موت کے سوداگر اقتدار کی بے حسی بھی بڑھتی جارہی ہے ، فرقہ وارانہ نظریات اور نسل پرستی کی جو پلاننگ مدتوں پہلے کی گئی تھی اسے عملی جامہ پہنانے کی اس قدر جلدی ہے’اور اس معاملے میں وہ اس قدر اندھی ہو چکی ہے’کہ نہ اسے ملک کی سالمیت کا خیال ہے نہ انسانیت کی پروا۔نہ اسے وطن کی تباہی کا احساس ہے’اور نہ ہی تار تار ہوتی جمہوریت اور آئین کی فکر،یہی وجہ سے کہ اس نے نسل کشی کرنے والے، انصاف وعدالت کا خون کرنے والے، مساوات ورواداری کے گلستاں کو تہ و بالا کرنے والے ایک غیر انسانی اور غیر قانونی خود ساختہ قانون کی تکمیل کے لیے اس نے پورے ملک کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا ہے’، عوام اضطراب کا شکار ہے’، اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات شریانوں کو منجمد کرنے والی سرد راتوں میں گھروں سے نکل کر دہلی کی شاہراہوں پر تقریبا ایک مہینے سےجمے ہیں، ملک تباہی کے دہانے پر ہے ،انگریزی استعماریت برہمنی روپ اور نازی ازم کی صورت میں پورے ملک کو نگل لینے کے لئے بے تاب ہے’ ‘، قوم کے وہ نوجوان اور قوم کی وہ بیٹیاں جنھوں نے قرطاس و قلم اور درسگاہوں میں اسٹدی اور ریڈنگ کے ذریعے سنہرےمستقبل کا خواب دیکھا تھا انھوں نے سڑکوں پر قوم کے تحفظ اور آزادی کے لئے اپنی راحت وآرام اور مستقبل کو قربان کردیا ہے’،کرب وآلام سے پورا ملک سسک رہا ہے’، معیشت زیر وزبر ہوکر رہ گئی ہے، باوجود اس کے حکمران وقت کو طاقت کا اس قدر نشہ ہے’کہ اس نے سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے’،اس عمل سے اس نے ثابت کردیا ہے’کہ اس کے وجود کی دنیا میں انسانیت،رواداری ،اخوت ومساوات اور انصاف وعدالت کی کوئی اہمیت ہے’نہ ہی آئین ودستور اور جمہوریت اور سیکولرازم کی کوئی حیثیت،
 بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ چند روز قبل وزیر داخلہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے’کہ ہم اپنی خود ساختہ پالیسی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے،ان کی یہ ہٹ دھرمی ، انسانیت سوزی کا یہ کردار اور انا پرستی کا یہ عمل بتا رہا ہے کہ حصول اقتدار کے لیے ان کی تمام جد وجہد،منصوبہ بند پلاننگ، میڈیا پر قبضہ،پروپیگنڈوں کا طوفان نہ تو ملک کی تعمیر وترقی کی خاطر تھا اور نہ ہی اس کی حفاظت ان کا مقصد ، ان کا ہدف صرف اور صرف مخصوص مائنارٹی اور خاص اقلیتی قوم یعنی مسلمانوں کی نسل کشی اور ملک کو ہند راشٹر بنانا تھا،اس ہدف کے لئے انھوں نے ہر وہ غیر دستوری حربے استعمال کیے جو ان کے مقصد کی تکمیل میں معاون ہوں،اسی حربے کی ایک کڑی یہ بھی ہے’کہ سلگتے ماحول، لہو رنگ فضاؤں اور جلتے ہوئے حالات اور حقوق وآئین کے تحفظ کے لئے بلند ہونے والے نعروں فریادوں، احتجاجوں کے درمیان ملک کی ملٹری کے دستور اور ساٹھ سال کی روایات کو بھی توڑ ڈالا،
آئین کے مطابق نیشنل فوج میں تین شعبے ہیں اور تینوں کے سربراہ الگ الگ ہوا کرتے تھے اور تینوں جنرل صدر جمہوریہ کو جواب دہ ہوتے تھے اب اس روایت کے خلاف بدنیت اور فسطائی حکومت نے اپنے مزاج اور نظرئے کے حامل ایک فرد کو فوج کے تمام شعبوں کا سربراہ بنا کر نسل کشی کے راستوں کو مزید ہموار کردیا ہے’، تاکہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے غارت گری کا بازار گرم کیا جاسکے، یہ صورت حال کس قدر تشویشناک اور کس قدر خطرناک ہے’اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔۔
مگر قیامت یہ ہے’کہ اب بھی قوم مسلم کی قیادت اس حوالے سے سنجیدہ نظر نہیں آتی، نہ ہی وہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی ضرورت محسوس کررہی ہے’،اقتدار کے فسطائی چہروں سے پروپیگنڈوں کا نقاب اترنے کے باوجود اور اس کے انتہا پسندانہ نظریات اور ظالمانہ کردار واضح ہونے کے باوجود بھی اب تک وہ کسی مضبوط لائحہ عمل پر نہ تو پہونچی ہے’اور نہ ہی اس کی طرف سے اس سلسلے میں وقت کے مطابق کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے’اس کی مثال 10/جنوری کو دہلی جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں تمام ملی تنظیموں کی میٹینگ اور اس کے نتائج ہیں’،قوم کے لئے یہ خوش آئند بات تھی کہ دیر سے ہی سہی قوم کے قائدین کی یہ بیٹھک ضرور پلاننگ کے حوالے سے کسی ٹھوس حکمت عملی پر پہونچےگی،مگر جب اس کے نتائج سامنے آئے تو تمام حوصلوں پر مایوسیوں کی اوس پڑ گئی، خوش فہمیوں کے آفتاب کو جیسے گہن لگ گیا،
مصلحت کی چادریں جب قیادت کی کائینات پر دراز ہوجاتی ہیں’،تو  قائدانہ صلاحیتوں پر زنگ لگ جاتے ہیں’، زمانے کے تقاضے اور ماحول کی کج ادائی حتی کہ تباہیوں کے طوفانوں میں بھی غفلتوں کا فسوں چاک نہیں ہوپاتا ہے’،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت قیادت کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے’، کیسی مضحکہ خیز اور حیرت کی بات ہے’کہ
جس اقتدار کی پیشانیاں دہلی میں ایک مہینے کے مسلسل احتجاج سے شکن آلود نہ ہوسکیں، جس آمریت کے پاؤں میں پورے ملک میں اٹھنے والے فلک شگاف مخالف نعروں سے ارتعاش پیدا نہ ہوسکا، وہ بند ہال میں صرف مذمتی قراردوں اور اظہار افسوس کی تجویزوں اور کسی حویلی کے دروازوں پر فقیروں کی طرح صدائے فریاد سے کیونکر متاثر ہوگی،
اگر اس مجلس کا صرف اتنا ہی مقصد تھا کہ حکومت وقت کے ظالمانہ کرداروں پر اظہار افسوس کیا جائے اس کی سفاکیت اور غیر قانونی عمل کی مذمت کر دی جائے تو یہ چیز احتجاج کے اول روز سے بے شمار رہنماؤں کی طرف سے ظاہر ہورہی ہے’،
مگر ہر فرد یہ جانتا ہے کہ موجودہ حالات میں نہ اس کا کوئی اثر ہے’نہ ہی کوئی فائدہ،یہ طرزِ عمل ان ممالک کے لئے ہے’جہاں حکومتیں اپنی عوام کے تحفظ کے لیے اس کے حقوق کے لیے وجود میں آتی ہیں’،جہاں سرے سے ان چیزوں کا تصور ہی نہ ہو وہاں اس کی کیا اہمیت ہے،
کرب واضطراب میں ڈوبی ہوئی قوم اس آس وامید نہیں،بلکہ یقین کی دنیا میں تھی کہ قیادت ذمہدارانہ فرض کے ذریعے ڈوبتی ہوئی کشتی کو ساحلوں سے ہمکنار کرنے کا کردار ادا کرے گی، ملت منتظر تھی کہ مضبوط اور مستحکم منصوبہ بندی سامنے آئے گی مگر افسوس ایسا کچھ نہ ہوسکا، ملی قیادتیں بصیرت مندانہ اور مجاہدانہ نگاہوں سے دیکھتیں تو انہیں نظر آتا کہ قوم ووطن کی سالمیت کے راستے مسدود نہیں ہیں
آزادی وطن اور فسطائیت سے حفاظت کی وادیاں خار زار ضرور ہیں سنگلاخ اگرچہ ہیں۔ لیکن عزم وہمت کے کوہ گراں کے آگے ان کی حیثیت گرد راہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں، کاش وہ فراست کی نظروں سے دیکھتیں تو انہیں تاریکیوں میں  سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کی قیادت نظر آتی اور اس سے ساتھ اتحاد کا راستہ نظر آتا، اور وہ اس سے ملکر
اس کی قیادت میں احتجاج کا علم بلند کرتیں جس طرح شیخ الاسلام اور شیخ الہند نے گاندھی کی قیادت میں آزادی وطن کی منزل حاصل کی تھی،
ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلباء وطالبات کے مظاہروں میں جاکر ان کی حوصلہ افزائی کرتیں جس طرح مولانا سجاد نعمانی نے بیماری کے باوجود ان کے پاس جاکر حوصلوں کی دنیا انہیں عطا کی ہے’،
انہیں چاہئے تھا کہ وفد کی صورت میں متحدہ ہوکر سکھ مائنارٹی کے پاس جاتیں اور ان کے اتحاد سے مضبوط لائحہ عمل مرتب کرتیں، قوم کی دوسری سیاسی اور سماجی تنظیموں کو دعوت دینے ،انہیں ناگفتہ بہ حالات سے آگاہ کرکے ان کے ساتھ جہد مسلسل کا اعلان کرتیں،اس کاز کے لئے اور قوم کی سالمیت کے لئے ان کے اتحاد کے ساتھ منصوبہ بندی کرتیں، بلا تفریق مذہب وملت قوم کھڑی ہے’منتظر ہے’ساتھ دینے کو تیار ہے’ غفلت ہماری طرف سے ہے’،ہمارے وجود کا سمندر ابھی تک انجماد آشنا ہے’، قوم سوال کررہی ہے’کہ وہ کون سی مصلحت ہے’جس نے ایسی نازک صورتحال میں بھی پاؤں میں زنجیریں پہنائی ہوئی ہے’،ہنگامہ داروگیر کے اس خطرناک لمحے سے زیادہ اب اور کون سا برا وقت آئے گا جس کے انتظار میں ملی سیاسی قیادتوں نے اپنی عزیمت،اپنی جد و جہد،اپنی سرگرمیوں،اور اپنے سرفروشانہ کرداروں کو پس پشت ڈال رکھا ہے’۔۔
تدریس وتعلیم کی دانشگاہوں کے نوجوانان قوم کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور ان کی تن تنہا بے لوث قربانیوں کے تناظر میں
امت کے اصحاب حل وعقد کے اس مایوس کن طرز عمل کو دیکھ کر مضطرب زبان خلق اس کے سوا اور کیا کہ سکتی ہے’۔کہ
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار ممبئی

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا