قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بارے میں نئی تفصیلات آئیں سامنے

0
0

تہران؍؍ایران کی کمر توڑ دینے والے حملے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ گذشتہ جمعے کو بغداد میں امریکی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کو ہلاک ہلاک کر دیا گیا۔ ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای کے بعد ملک کے دوسرے طاقت ور ترین شخص کی موت کا معمہ ابھی تک ایسے سوالات کے ساتھ متعلق ہے جن کے جوابات باقی ہیں۔اس سلسلے میں عراقی اور شامی ذرائع کی جانب سے نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔جمعے کے روز رائٹرز ایجنسی کی جانب سے جاری نئی تفصیلات کے مطابق قاسم سلیمانی گہرے رنگ کے شیشوں والی ایک گاڑی میں دمشق کے ہوائی اڈے پر پہنچے۔ گاڑی میں سلیمانی کے ہمراہ ایرانی پاسداران انقلاب کے چار فوجی اہل کار بھی تھے۔ یہ گاڑی ہوائی اڈے کے رن وے پر ایک ایئربس 320 طیارے کے نزدیک جا کر رکی۔ شامی فضائی کمپنی کی یہ پرواز بغداد روانہ ہونی تھی۔ فضائی کمپنی کے ایک ملازم کے مطابق سلیمانی اور اس کے ہمراہ موجود سپاہیوں کے نام طیارے کے مسافروں کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔قاسم سلیمانی کے لیے سیکورٹی انتظامات پر مامور ایک عراقی سیکورٹی ذریعے نے بتایا کہ ایرانی کمانڈر نے اپنی ذاتی سیکورٹی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے اندیشوں کے سبب اپنا نجی طیارہ استعمال کرنے سے گریز کیا۔یہ سلیمانی کا آخری فضائی سفر تھا کیوں کہ بغداد کے ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد امریکی طیاروں کے حملے میں القدس فورس کا یہ سربراہ ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ بغداد کے ہوائی اڈے پر سلیمانی کا استقبال کرنے والا شخص بھی مارا گیا۔ یہ عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کا نائب سربراہ ابو مہدی المہندس تھا۔ادھر عراقی سیکورٹی کے دو ذمے داران نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ بغداد میں امریکی حملے کے چند منٹوں کے بعد ہی واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ نیشنل سیکورٹی ادارے کے اہل کاروں نے فوری طور پر بغداد کا ہوائی اڈہ بند کر دیا۔ اس دوران درجنوں سیکورٹی اہل کاروں کو کوچ کرنے سے روک دیا گیا جن میں پولیس اہل کار، کسٹمز کے افراد اور انٹیلی جنس اہل کار شامل تھے۔تحقیقات کی سربراہی الحشد الشعبی ملیشیا کے صدر اور عراقی قومی سلامتی کے مشیر فالح الفیاض کر رہے ہیں۔ تحقیقات میں بنیادی توجہ دمشق اور بغداد کے ہوائی اڈوں پر موجود اْن مبینہ مخبروں پر دی جا رہی ہے جنہوں نے قاسم سلیمانی کا ٹھکانہ متعین کرنے میں امریکی فوج کے ساتھ تعاون کیا۔ تحقیقات کے دائرے میں عراقی سیکورٹی کے دو ذمے دار، بغداد ہوائی اڈے کے دو ملازمین، بغداد پولیس کے دو ذمے دار اور شامی نجی فضائی کمپنی کے دو ملازمین شامل ہیں۔ کمپنی کا صدر دفتر دمشق میں ہے۔ایک عراقی سیکورٹی ذمے دار کے مطابق نیشنل سیکورٹی ادارے کے تحقیق کاروں کے پاس اس بات کے قوی اشاریے ہیں کہ انتہائی اہم سیکورٹی تفصیلات اِفشا کرنے میں بغداد ہوائی اڈے کے اندر جاسوسوں کا ایک نیٹ ورک ملوث ہے۔نیشنل سیکورٹی ادارے کے تحقیق کاروں کے خیال میں مشتبہ افراد کی تعداد چار ہے جو گرفتار نہیں ہوئے۔ ان افراد نے امریکی فوج کو معلومات فراہم کرنے والے افراد کے گروپ میں رہ کر کام کیا۔دوسری جانب امریکی وزارت دفاع نے حملے کے سلسلے میں عراق اور شام میں موجود مخبروں کے کسی بھی ممکنہ اہم کردار پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی ذمے داران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ امریکہ حملے سے قبل کئی دنوں سے قاسم سلیمانی کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔دمشق میں فضائی کمپنی کے سربراہ نے بتایا کہ کمپنی کے ملازمین کو حملے یا تحقیقات کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح عراقی سول ایوی ایشن کے ترجمان نے بھی تحقیقات کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی۔ تاہم ترجمان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے واقعے کے بعد سینئر ذمے داران کو شامل تفتیش کرنا معمول کی بات ہے۔واضح رہے کہ قاسم سلیمانی کا طیارہ بغداد کے ہوائی اڈے پر 2 اور 3 جنوری کی درمیانی شب 12.30 بجے اترا۔ الحشد الشعبی ملیشیا کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس نے طیارے کے باہر سلیمانی کا استقبال کیا۔ دونوں افراد ایک بکتر بند گاڑی میں سوار ہو گئے۔ سلیمانی کی حفاظت پر مامور اہل کار ایک دوسری بڑی بکتر بند گاڑی میں سوار ہو گئے۔ دونوں گاڑیاں ہوائی اڈے سے باہر آ گئیں۔ اس موقع پر رات 12:55 پر پہلے امریکی میزائل نے سلیمانی اور المہندس کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس کے چند سیکنڈ بعد ہی محافظین کی گاڑی پر میزائل حملہ ہوا۔دو عراقی سیکورٹی ذمے داران کے مطابق تحقیق کاروں نے حملے کے بعد چند گھنٹوں کے دوران اْن تمام فون کالز اور موبائل میسجز کو کھنگال ڈالا جو بغداد ہوائی اڈے پر شام کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین کو موصول ہوئے تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا