دھنباد؍؍ سینئر صحافی گوری لنکیش قتل کے ایک ملزم کو کرناٹک کے بنگلور سے آئی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے جھارکھنڈ کی دھنباد ضلع پولیس کے تعاون سے کتراس تھانہ علاقہ کے بھگت محلے میں چھاپے دوران گرفتار کر لیا ہے ۔سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ کشور کوشل نے آج یہاں بتایا کہ بنگلور پولیس نے سال 2017 میں ایک سماجی ادارے سے وابستہ چار افراد کے قتل کے ایک معاملے میں چھان بین کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے لئے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ایس آئی ٹی کو درست اطلاع ملی تھی کہ اس معاملے کا ایک ملزم دھنباد ضلع کے کتراس تھانہ علاقے میں نام بدل کر رہ رہا ہے ۔مسٹر کوشل نے بتایا کہ بنگلور سے آنے والی ایس آئی ٹی ٹیم نے مقامی پولیس کے تعاون سے کل دیر رات کتراس تھانہ علاقہ کے بھگت محلے میں چھاپہ مارا اور مرلی عرف راجیش عرف رشی کیش دیورکر کو گرفتار کر لیا۔ اس کے کمرے سے سناتن دھرم کی کچھ کتابوں کے ساتھ کئی دیگر قابل اعتراض اشیاء برآمد کی گئی ہیں۔ پوچھ گچھ میں اس نے سینئر صحافی گوری لنکیش کے قتل معاملے میں بھی ملوث ہونے کی بات قبول کرلی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتار رشی کیش کا تعلق ایک انتہا پسند ہندو تنظیم سے بھی وابستہ ہے ۔سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ کوشل نے بتایا کہ رشی کیش کچھ دنوں سے یہاں شناخت چھپا کر رہ رہا تھا اور کتراس میں ایک پٹرول پمپ میں کیئر ٹیکر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھگت محلے میں ہی پٹرول پمپ کے مالک کے مکان میں کرائے دار کے طور پر رہ رہا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ رشی کیس مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع کا رہنے والا ہے ۔دوسری جانب بنگلور ایس آئی ٹی ٹیم کے ایک افسر نے بتایا کہ ابھی تک گوری لنکیش کے قتل میں شامل کل 18 لوگوں کے نام کا ا انکشاف ہوا ہے ۔ ان میں امول کالے کا اہم کردار تھا۔رشی کیش بھی اس قتل کی سازش میں شامل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایس آئی ٹی رشی کیش کو آج مقامی عدالت میں پیش کرکے اس کی ٹرانزٹ ریمانڈ کی درخواست کرے گی اور ٹرانزٹ ریمانڈ ملنے کے بعد اسے اپنے ساتھ بنگلور لے جائے گی۔واضح رہے کہ کنڑ زبان میں شائع ہونے والی ہفتہ وار میگزین لنکیش کی ایڈیٹر گوری لنکیش کو 5 ستمبر 2017 کو بنگلور کے راج راجیشوري نگر واقع ان کے مکان میں حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اگرچہ حملے کی وجہ کا پتہ نہیں چل پایا تھا۔ محترمہ لنکیش کے قتل پر ملک کے صحافیوں اور دانشوروں میں وسیع پیمانے پر رد عمل ہوا۔ دہلی میں صحافیوں نے پریس کلب میں جمع ہوکر اس کی مذمت کی اور جنتر منتر پر احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس قتل کے سلسلے میں زبردست احتجاج ہوا