سپریم کورٹ کا فیصلہ

0
0

انٹرنیٹ کی فوری بحالی کی امیدیں جاگ اٹھیں
یواین آئی

سرینگر ؍؍وادی کشمیر میں جاری دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ پابندی کے 160 ویں دن جمعہ کے روز اہلیان وادی میں اس وقت انٹرنیٹ کی فوری بحالی کی امیدیں جاگ اٹھیں جب سپریم کورٹ نے حکومت کو انٹرنیٹ کی مسلسل پابندی کے معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت دی۔ وادی میں جمعہ کی صبح ہر ایک جگہ پر لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو سپریم کورٹ سے انٹرنیٹ کی پابندی کے معاملے پر آنے والے فیصلے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مصروف دیکھا گیا۔ بعض لوگوں نے فیصلے سے یہ تک اخذ کرلیا کہ وادی میں انٹرنیٹ خدمات ایک ہفتے کے اندر اندر بحال ہوں گی جس کو واقف کار حلقوں نے دن میں خواب دیکھنے سے تعبیر کیا ہے۔ واضح رہے کہ اہلیان وادی کو اس وقت دنیا کی طویل ترین اور ریکارڈ ساز انٹرنیٹ قدغن کا سامنا ہے جس کے باعث یوں تو جملہ شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے ہیں لیکن صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو جن متنوع مسائل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا وہ فقیدالمثال ہیں۔انٹرنیٹ کی مسلسل پابندی سے اہلیان وادی کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعرات کو جب وادی میں دسویں جماعت کے امتحانی نتائج کا اعلان کیا گیا تو طلبا اپنے امتحانی نتائج جاننے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکتے نظر آئے۔ ہزاروں کی تعداد میں طلبا نے ملک کی مختلف ریاستوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں کو فون کرکے اپنا ریزلٹ جانا۔ حیدرآباد میں مقیم ایک کشمیری صحافی نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا: ‘کشمیر میں دسویں جماعت کے نتائج ظاہر کئے گئے۔ چونکہ وہاں انٹرنیٹ اب بھی معطل ہے اس لئے کئی والدین نے اپنے بچوں کے نتائج جاننے کے لئے مجھے فون کیا’۔ سرور احمد نامی نوجوان جس کی روزی روٹی ای کامرس سے جڑی ہے، نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کم از کم یہ امید تو جاگ گئی کہ انٹرنیٹ بہت جلد بحال ہوگا۔ ان کا کہنا تھا: ‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ "بہت دیر کردی مہربان آتے آتے” کے مصداق ہے۔ یہاں ای کامرس پانچ اگست سے کلی طور پر ٹھپ ہے۔ مجھ جیسے ہزاروں نوجوان بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ہماری امیدیں سپریم کورٹ سے جڑی ہیں۔ اس فیصلے سے تو کم از کم یہ امید جاگ اٹھی ہے کہ انٹرنیٹ بہت جلد بحال ہوگا’۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق نے کہا کہ بدقسمتی سے وادی کو اس وقت دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ای کامرس کے ساتھ ساتھ چیزیں درآمد کرنے والی انڈسٹریوں بالخصوص دستکاری شعبے کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہماری حالیہ رپورٹ کا مقصد ہندوستان اور عالمی سطح پر لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیر کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچا ہے۔ ہمیں پانچ اگست سے انٹرنیٹ کی کلی معطلی کا سامنا ہے۔ یہ دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن ہے۔ یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے’۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے پیش نظر 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو سابقہ ریاست جموں کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات معطل کی گئی تھیں۔ اگرچہ لداخ کے دونوں اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات بطور کلی بحال ہوئی ہیں تاہم جموں میں موبائل انٹرنیٹ اور کشمیر میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات ہنوز معطل ہیں۔اگرچہ وادی میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے بارے میں کئی بار افوائیں بھی گرم ہوئیں اور ارباب اقتدار نے بھی کئی بار براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس مرحلہ وار طریقے سے بحال کرنے کے وعدے بھی کئے لیکن فی الوقت زمینی سطح پر صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی نے جہاں دنیا میں انٹرنیٹ قدغن کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرکے دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن کا اعزاز حاصل کیا ہے وہیں اہلیان وادی کو مشکلات و مسائل کے ایک ایسے اتھاہ بھنور میں دھکیل دیا جس سے باہر آنے کی انہیں کوئی صورت نظر آرہی ہے اور نہ کوئی امید بر آرہی ہے۔کشمیر میں انٹرنیٹ سہولیات پر جاری پابندی سے جملہ شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے لیکن صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کے تصور سے پرے ہی نہیں بلکہ ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔وادی میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات اور جموں میں موبائل انٹرنیٹ خدمات کی مسلسل معطلی کی وجہ سے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ‘شکایتی سیل’ بھی عضو معطل بن کے رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں لوگ اپنی شکایات ارباب اقتدار کی نوٹس میں لانے کے لئے پریشاں اور سرگرداں ہیں۔انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی کے پیش نظر اگرچہ انتظامیہ نے صحافیوں کے لئے پہلے سونہ وار سری نگر کے ایک نجی ہوٹل میں میڈیا سینٹر، جس کو بعد ازاں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں منتقل کیا گیا، قائم کیا لیکن وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان روز اول سے ہی رہا۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ سری نگر بھر کے صحافیوں کے لئے میڈیا سینٹر میں صرف دس کمپیوٹر دستیاب ہیں جو نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ انٹرنیٹ کی رفتار بھی اس قدر دھیمی ہوتی ہے کہ صحافیوں کا کام کاج از حد متاثر ہوجاتا ہے۔وادی کے صحافیوں نے انتظامیہ سے میڈیا دفتروں میں کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سہولیت بحال کرنے کی بسیار اپیلیں بھی کیں اور ‘تنگ آمد بہ جنگ آمد’ کے مصداق بر سر احتجاج بھی ہوئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں چلہ کلان کی زمستانی ہواؤں میں بھی ہر روز اپنے دفتروں کے بجائے میڈیا سینٹر پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں اپنی اسٹوریاں اپنے اپنے اداروں تک بھیجنے کے لئے اپنی اپنی بھاریوں کے انتظار میں قطار میں کھڑا رہنا پڑرہا ہے۔وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی نے طلبا کی پریشانیاں مزید دو چند کر دیں، غیر اعلانیہ ہڑتالوں سے تعلیمی سرگرمیاں معطل رہنے سے تو انہیں ناقابل تلافی تعلیمی نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا تھا کہ انٹرنیٹ پابندی سے وہ داخلہ فارم، امتحانی فارم اور اسکالر شپ فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔ذرائع کے مطابق وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی متعدد طلبا کو بیرون ریاست کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں حائل ہوئی اور کئی طلبا ایسے بھی ہیں جنہیں امتحانی فارم جمع کرنے میں سخت ترین مشکلات پیش آئے۔وادی کے طلبا اسکالر شپ فارم جمع نہیں کرپارہے ہیں اگرچہ مرکزی وزارت اقلیتی امور نے اسکالر شپ فارم جمع کرنے کی تاریخ میں دوبار توسیع کی لیکن ابھی بھی بے شمار طلبا اسکالر شپ فارم جمع کرنے سے قاصر ہی ہیں علاوہ ازیں وادی کے ریسرچ اسکالر اپنے ریسرچ پیپر تیار نہیں کر پارہے ہیں کیونکہ گوگل تک ان کی رسائی ہی منقطع ہے۔ جو معلومات وہ ایک ہی کلک کرکے گوگل سے حاصل کرتے تھے ان معلومات کو اب وہ کئی کتابوں کی ورق گرادنی کے بعد بھی حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔وادی میں مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف طلبا کو انٹرنیٹ سہولیات کی معطلی اس قدر پریشان کیا ہے کہ بعض وادی بدر ہوکر ملک کی مختلف ریاستوں میں فروکش ہونے پر مجبور ہوئے ہیں اور بعض نے افسر بننے کے خوابوں کو آباد کرنے کے خیالوں کو ہی خیر باد کہہ دیا۔وادی میں جاری انٹرنیٹ قدغن سے تاجروں کو بے تحاشا نقصان سے دوچار ہی نہیں ہونا پڑا بلکہ ای کامرس مکمل طور پر ٹھپ ہوا جس کے باعث اس سے وابستہ بے شمار نوجوانوں کا روزگار بھی ختم ہوا۔انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی سے اہلیان وادی کو جہاں سرکاری دفاتر میں اپنے کاموں کے نپٹارے کے لئے گوناگوں مشکلات درپیش ہیں وہیں انہیں بیرون ریاست سفر کرنے میں بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔سرکاری محکموں میں بھی کئی امور انٹرنیٹ پر منحصر ہے اور انٹرنیٹ کی معطلی سے لوگوں کے کئی اہم کام یوں ہی التوا میں پڑے ہوئے ہیں اور اگروادی کے کسی فرد کو بیرون ریاست سفر کرنا ہے تو ٹکٹ نکالنے کے لئے ایسی مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑرہا ہے جو مصائب سفر سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔وادی میں انٹرنیٹ کی بحالی کے دور میں کسی مریض کو خون کی ضرورت ہوتی تھی تو فیس بک پر پیغام عام ہوتے ہی خون کا عطیہ دینے والوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں لیکن گزشتہ ساڑھے پانچ ماہ کے دوران محتاج مریضوں کو پانی کے ایک ایک بوند کے لئے ترسنا پڑتا ہے خون کی تو بات ہی نہیں ہے۔انٹرنیٹ پابندی نے وادی کے بچوں کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑا جہاں ان کے انٹرنیٹ پر منحصر اسکولی امور متاثر ہوئے وہیں وہ موبائل فونوں وغیرہ پر مختلف النوع تفریحی سامان سے محروم ہوئے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا