ہماری جدوجہد کو سیاست کی نظر سے نہ دیکھیں

0
0

لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقات کا فیصلہ دماغ کا نہیں دل کا تھا: الطاف بخاری
یواین آئی

سرینگر؍؍سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ پانچ اگست ایک سیلاب جیسا تھا جس نے جموں وکشمیر کا گھر گرا دیا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی ریاست کا درجہ اور زمین و نوکریوں کا تحفظ مانگ کر چار دیواری کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور بعد میں اگر کوئی لیڈر اس چار دیواری کو سونے یا چاندی سے سجانا چاہتا ہے تو سجا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے ریاست کا درجہ واپس مانگنے کا مطلب نہیں کہ دفعہ 370 واپس نہیں مانگا جاسکتا، جب ریاست کا درجہ واپس ملے گا تو باقی چیزیں بھی واپس مل سکتی ہیں۔ مسٹر بخاری نے متعلقین سے اپیل کہ وہ الطاف بخاری اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو سیاست کی نظر سے نہیں بلکہ خلوص کے جذبے سے دیکھیں اور لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو سے میمورنڈم کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ دماغ کا نہیں دل کا تھا۔ تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا ہے کہ اگر ریاست کا درجہ واپس حاصل کرنے، زمینوں اور نوکریوں کے تحفظ اور دیگر چیزوں کے لئے اگر کل کو ایک سیاسی جماعت کی بھی ضرورت پڑے گی تو ایک پلیٹ فارم کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ سید محمد الطاف بخاری جنہوں نے منگل کے روز جموں میں لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقات کی، نے بدھ کے روز یہاں یو این آئی اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا: ‘ہماری جدوجہد کو سیاست کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اس کو آپ خلوص کے جذبے سے دیکھیں۔ یہ فیصلہ دل کا ہے دماغ کا نہیں۔ دماغ کہتا ہے کہ الطاف بخاری یہ وقت نہیں ہے۔ لوگ آپ کو طرح طرح کے ناموں سے بلائیں گے۔ کوئی کہے گا دلی نے کھڑا کیا۔ کوئی کہے گا ایجنٹ بن گیا۔ کوئی کہے گا کشمیر کو بیچنے کے لئے نکل گیا۔ میرا جواب ان لوگوں کے لئے یہ ہوگا کہ یہاں بیچنے کے لئے کیا بچا ہے۔ یہاں تو سب ختم ہوچکا ہے’۔انہوں نے کہا: ‘اب تو وہاں سے کچھ لانا ہے۔ آج یہاں سے دینے کے لئے کشمیر کے کسی سیاست دان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ وقت وہاں سے کچھ لانے کا ہے۔ ہمیں ریاست ان سے مانگنی ہے۔ جہاں تک دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کا سوال ہے تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ فیصلہ وہاں سے آئے گا’۔ بتادیں کہ مسٹر الطاف بخاری کی قیادت میں گزشتہ روز سابق وزرا و ممبران اسمبلی کی آٹھ رکنی وفد لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو کے ساتھ ملاقی ہوئی اور 15 نکات پر مشتمل میمورنڈم پیش کیا جس کو بدھ کے روز وادی کے کئی اخباروں میں شائع بھی کیا گیا تھا۔ میمورنڈم میں ریاست کا درجہ واپس کرنے، زمین و نوکریوں کا تحفظ، قیدیوں کی رہائی، انٹرنیٹ کی بحالی سمیت پندرہ مطالبے شامل ہیں۔ مسٹر بخاری نے پانچ اگست، جب مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے علاوہ اس کو دو وفاقی علاقوں میں تبدیل کیا، کو سیلاب قرار دیتے ہوئے کہا: ‘پانچ اگست ایک سیلاب جیسا تھا۔ گھر گر گیا۔ میں تو چار دیواری کھڑا کررہا ہوں۔ بعد میں جس کو اس میں سونا جھڑنا ہے یا چانی وہ بعد میں جھڑے۔ ہماری طرف سے ریاست کا درجہ مانگنے کا مطلب نہیں کہ دفعہ 370 واپس نہیں مانگا جاسکتا۔ یہاں بڑے لیڈر ہیں اور بڑی پارٹیاں ہیں۔ جس کی جتنی بساط ہیں وہ اتنا کرے۔ جب ریاست کا درجہ واپس ملے گا تو باقی چیزیں بھی واپس مل سکتی ہیں’۔ الطاف بخاری نے کہا کہ اگر ریاست کا درجہ واپس حاصل کرنے، زمینوں اور نوکریوں کا تحفظ اور دیگر چیزوں واپس حاصل کرنے کے لئے اگر کل کو ایک سیاسی جماعت کی بھی ضرورت پڑے گی تو ایک پلیٹ فارم کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘اگر ریاست کا درجہ واپس حاصل کرنے، زمینوں اور نوکریاں کا تحفظ حاصل کرنے اور باقی چیزوں کے لئے اگر کل کو ایک سیاسی جماعت کی بھی ضرورت پڑے گی تو ایک پلیٹ فارم کھڑا کیا جاسکتا ہے’۔ سابق وزیر نے کہا کہ انہوں نے جو میمورنڈم لیفٹیننٹ گورنر کو سونپا ہے وہ اب وہاں سے وزارت داخلہ کو روانہ ہوگا اور وہ اپنے مطالبات کو فالو کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا: ‘ہمارے میمورنڈم پر لیفٹیننٹ گورنر کا ردعمل بہت مثبت تھا۔ ان کے ہاتھ میں ہر ایک چیز نہیں ہے۔ ہم آئینی چیزیں مانگ رہے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ چونکہ یونین ٹریٹری آف جموں وکشمیر میں مرکز کے نمائندے ہیں تو ہمارا میمورنڈم ان کے ذریعے وزارت داخلہ کو جائے گا۔ جو چیزیں لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہیں وہ وہ کریں گے، جو چیزیں مرکز کے ہاتھ میں ہیں اس پر وہاں کارروائی ہوگی’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہم اپنے مطالبات کو فالو کرتے رہیں گے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ ایک دن گئے اور مسئلہ حل ہوگیا۔ ریاست حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہے۔ زمین اور نوکریوں کے تحفظ، بچوں اور سیاسی لیڈران کی رہائی، انٹرنیٹ کی بحالی، بینک کی آٹانومی کے لئے جدوجہد کرنی ہے۔ یہ ایک دن کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا فالو اپ کرنا ہوگا اور ہم فالو اپ کرتے رہیں گے’۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا