ویشالی ضلع اردو سیل،حاجی پور(ویشالی) کارسالہ ’’ غنچۂ ادب‘‘ نہایت ہی نایاب و عمدہ رسالہ ہے۔ویشالی ضلع اردو سیل کا یہ پہلا جریدہ،اردو سیل کے اراکین،ایڈٹر محمد خورشید عالم کی محنت،اردو سے ان کی محبت اور اردو کی خدمت کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔اس جریدے کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بے شمار حضرات و خواتین نے اپنے مقالات تحریر کر کے اس جریدے کی شان بڑھائی ہے۔فہرست مضامین کی ترتیب بھی نہایت عمدہ ہے۔ایک سو صٖفحات کے اِس جریدے میں تمام فنون کو یکجا کر کے ایک خوبصورت ادبی گلدستہ بنایا گیا ہے۔اس رسالے میں پانچ مقالات،چار افسانے،حمد بار تعالیٰ،نعت شریف، نظموں،غزلوں کی تعدادآٹھ عدد ہیں اور متفراقات کی شمولیت اس جریدے کو چار چاند لگا رہے ہیں۔اخبار کے تراشے بھی اس جریدے کی جان کہی جا سکتی ہے جسے اس جریدے کے سب سے آخر میں رکھا گیا ہے۔ اِس رسالے کے مقالات پر صرف ِ نظر کرتے ہوئے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہر ایک مقالہ نگار نے اردو زبان کی زبوں حالی،بدحالی اور اِس سمت میں حکومت ِ وقت کی غیر دلچسپی نے اِس زبان کی عظمت،شیرینی و چاشنی کو کم کر دیا ہے۔یہ زبان خود اپنے ہی وطن میں غیر زبان بن گئی ہے۔اگر اس زبان کی ساخت پر غور کیا جائے توپا یا جائے گا کہ اس گنگا جمنی زبان میں بے شمار الفاظ شامل ہیں جسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔اگر یوں کہیں کہ یہ زبان تمام زبانوں کا مرکب ہے تو غلط نہ ہو گا تب ہی تو اس کا نام ’’ لشکر‘‘ ہے۔اس رسالے کا آغاز جناب ثناء الہدیٰ قاسمی کے مقالے ’’ویشالی کی تاریخی و تہذیبی اہمیت‘‘سے کیا گیا ہے۔موصوف نے ویشالی ضلع کے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھاِس شہر کے فروغ وحالات پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ اگلا مقالہ اردو کے معروف ادیب،قلم کار اور ناقد انوارالحسن وسطوی کا ہے اور اپنے مقالے ’’ اردو کا تحفظ : کتنا اہم کتنا ضروری ‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا ہے جو نادر ہے۔ مضمون نگار نے اپنے مقالے کے ذریعہ کئی باتوں پر روشنی ڈالی ہے اور چند مفید مشورے بھی دئے ہیں۔صفحہ نمبر ۱۹؍ پر وہ رقم ظراز ہیں : ’’ایسے گھرانوں میں اردو کا چرچہ تقریباً صفر کے برابرہے ۔زیادہ تر گھروں میں اردو کی کتابیں اخبارات و رسائل شجر ممنوعہ ہیں۔‘‘ ایسا کہنے میں موصوف حق بجانب ہیںلیکن انہوں نے جو یہ کہہ ڈالا ہے کہ’’ …… یہاں تک کہ بدھن جمن بھی اردو اساتذہ اور پروفیسروں کو اردو کی روٹی کھانے کا طعنہ دے ڈالتے ہیں۔‘‘ (صفحہ نمبر ۲۱ ملاحظہ فرمائیں)۔آخر موصوف ہی بتائیں کہ کمی کہاں رہ گئی ہے۔ چونکہ وہ خود اردو کے خادم و استاد رہے ہیںاس لئے یہ ’’طعنہ‘‘ انہیں برداشت نہیں ہو رہا ہے۔میرا کہنا ہے کہ : ’’ ہم سب اِس کے ذمہ دار ہیں۔اگر ہر اردو پڑھا لکھا شخص ٹھان لے اور عہد کر لے کہ وہ خود اردو پڑھے گا،اُس کے بچے اردو کی تعلیم حاصل کریں گے اور پڑھانے والوں کی باز پرس بھی کریں گے تو شاید ہی کوئی ایسا انسان ملے گا جو اردو کی ترویج و فروغ میں کوتاہی کرتا نظر آئے۔ صٖٖفحہ نمبر ۲۵ سے۳۰ تک ڈاکٹر اے ایم اظہارالحق نے ’’مادری زبان کی اہمیت‘‘ پر بڑی خلوص کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور اپنے اِس مقالے میں ہماری مادری زبان اردو کو کئی مثال دے کر بڑی خوبصورتی اور جامع انداز میںگفتگو کی ہے بلکہ اس نکتے کو سمجھانے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔انہوں نے اپنے پیشے ’’وکالت‘‘ کے سلسلے میں عدالت میں اردو زبان میں موئثر بحث سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اردو زبان ترسیل ِ خیا لات کا بہترین ذریعہ ہے(صفحہ نمبر ۲۷ اور ۲۸ دیکھیں)۔ ڈاکٹر شارقہ شفتین نے ایک بہت ہی عمدہ افسانہ ’’انتظار‘‘ قارئین ’’ غنچۂ ادب ‘‘ کو نذر کیا ہے۔اس افسانے کے ذریعہ موصوفہ نے جو انداز ایک نفسیاتی مریض کے متعلق پیش کیا ہے وہ بہت اچھا ہے۔انہوں نے اپنے افسانے میں’’ شیوانی‘‘ کے کردار کے ساتھ خوب خوب انصاف کیا ہے۔ وہ اِس افسانے میں صفحہ نمبر ۴۵ پر لکھتی ہیں……. ’’ وہ ماں کی حالت دیکھ کر برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔اس نے اب ٹھوس قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیاتھا۔کیونکہ دوائیاں بے سود ثابت ہو چکی تھیں۔دعائیں اَن سنی ہو چکی تھیں۔بہت پہلے ایک ڈاکٹر نے جو صلاح دیا تھا شیوانی کو لگ رہا تھا کہ اب اس پر عمل کر نے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے افسانہ نگار نے اپنے کردار کو جاندار بنانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب ہیں۔ محترمہ کہکشاں توحید ایک معمر افسانہ نگار ہیں اور اُن کا ایک افسانہ اِس جریدے میں ’’ دیوی‘‘ کے نام سے شامل ہے جو صفحہ نمبر ۵۵ سے شروع ہوکر صفحہ نمبر ۵۹ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔افسانہ ’’دیوی‘‘ میں افسانہ نگار نے افسانے کے آخر میں ’’دیوی‘‘ کے روپ میں پیش کر کے اسے ایک کامیاب افسانہ بنا دیا ہے لیکن کمپوزنگ کی غلطیوں نے افسانہ نگار کی باتوں کو سمجھنے میں روکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔اسی افسانے سے ایک سطر قارئین کی خد میں پیش کر کے میں اپنی بات کو ثابت کرنے کوشش کرتا ہوں: ’’ پارٹ وارٹ کا سہوینگے جو عورت مرد کا دکھر کا درد سمجھے وہی عورت عورت ہوے ہے۔بیٹا تو بیٹا ہے تو ہم جان ہے۔ننکوا سارے دن کام کر کے تھکتی رہی ہے۔چھمیا عورت نہیں دیوی ہے۔سریتا دیو ……..اور اس کے چھمیا کو اپنے گلے سے لگا لیاچھمیا کی آنکھیں خوش،اس میں قعودتر بہترا ہے ننکوا جو تو گھر کا خرچ نہ اُٹھا سکے ہے۔‘‘ قارئین خود بتائیں کہ انہیں کچھ سمجھ میں آیا کہ افسانہ نگار اِن سطور میں کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔اس افسانے میں واو معکوس(’’ ‘‘) کی بے حد کمی در آئی ہے جو اس عمدہ مضمون کو غارت کرنے میں مددگار ہے۔جب افسانے میں کچھ باتیں مکالمہ کے انداز میں افسانہ کے کردار سے کہلایا جاتا ہے تو جملے کے شروع میں اور جملہ جب ختم ہو تو اس جملے کو واو معکوس سے گھیر دینا لازمی ہے۔ ڈاکٹر اے ایم اظہارالحق کا ایک افسانہ ’’ خان صاحب کی وفات‘‘ بہت ہی دلچسپ افسانہ کہا جا سکتا ہے۔افسانہ نگار نے اپنے مضبوط کردار خان صاحب کی نظر سے،جو وفات پا جاتے ہیں ،دیکھ کر جو عبرت کی باتیں پیش کی ہیں وہ حقیقت سے بہت قریب معلوم ہو رہا ہے۔انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو دنیا کا کاروبار رُک نہیں جاتا ہے بلکہ اسی روانی کے ساتھ چلتا رہتا ہے، جیسا کسی کی وفات سے پہلے۔خان صاحب مرنے کے بعد جب اپنے گھر لوٹ کر آتے ہیں توکیا دیکھتے ہیں،اس کی عکاسی ان سطور سے واضح ہو رہی ہے…….’’ اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر وہ ٹھٹھک گیا۔ان کے نام کی تختی غائب تھی۔براندے میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی گاڑی خریدی تھی انہوں نے اس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں ۔دھچکا سا لگا۔گاڑی کہا ں ہو سکتی ہے؟بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔تو پھر ان کی بیوی جو اب بیوہ تھی،کیا گاڑی کے بغیر تھی؟دروازہ کھلاکھلا تھا……. ‘‘۔ ’’نہ جانے بچے کیا سلوک کر رہے ہیں۔مگر وہ تو بول نہ سکتا تھا۔نہ ہی وہ انہیں دیکھ سکتی تھی۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔‘‘ اس طرح افسانہ نگار نے یہ ثابت کر دیا کہ مرنے والے کی اب دنیا کو کوئی ضرورت نہیں رہی۔(صفحہ نمبر ۶۰ سے ۶۲ تک)۔ اِس جریدے میں ایک اور افسانہ ،جو شفقت نور ی صاحبہ نے پیش کیا ہے اُس کا خوبصورت عنوان ہے ’’انا کی خاطر‘‘۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے محبت کی کشمکش کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔اس افسانے کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ آخر تک پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ ’’مریم‘‘ ایک غیر شادی شدہ ہے بلکہ خود ڈاکٹر جاذب بھی دھوکہ کھا جاتا ہے کہ وہ جس شخص کے ساتھ پارٹی میں آئی ہے وہ اُس کا خاوند نہیں اُس کا ’’کزِن‘‘ ہے۔افسانہ نگار نے بہت کامیابی کے ساتھ اِس افسانے کا اختتام لکھا ہے۔افسانہ نگار رقم طراز ہیں ’’ تو پھر تم نے جاذب کو سچ کیوں نہیں بتایاکہ تم میری بیوی نہیں ہو بلکہ میری کزن ہو۔میری بیوی ملیحہؔ ہے جو طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے نہیں آ سکی اور مجھے مجبوراً سب کا دل رکھنے کے لئے تمہیں لانا پڑا۔‘‘ مریم کا جواب بھی سُنئے…… ’’ جاذب نے مجھے موقع کہاں دیا۔جب دیکھا شک کی نظر سے دیکھا،جب زبان کھولی مجھ پر الزام لگایا اور پھر اپنی جھوٹی چاہت کا سہارا لے کر مجھے نیچا دکھایا…… اس کی محبت کو محبت نہیں سمجھا بزنس سمجھا ہے۔‘‘مریم بولتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔‘‘(صفحہ نمبر ۷۱؍ ملاحظہ فرمائیں)۔ یہ جریدہ سفید آئی ووری کاغذپر بڑی عمدہ طباعت کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔دیدہ زیب سرِ ورق بھی اِس جریدے کی شان سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔اِس جریدے میں حاجی پور(ویشالی) کے تمام عہدے داران کے نام عہدے اور مکمل پتہ کے ساتھ ساتھ فون نمبر بھی درج کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اس علاقے کے تما م افسانہ نگار، شعرا و شاعرات کے نام اور پتہ اور فون نمبر بھی شامل کئے گئے ہیں۔اس طرح یہ جریدہ ایک دستاویز بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن اس جریدے میں کمپوزر نے فاش غلطیاں کر ڈالی ہے جس کی نشان دہی لازمی ہے۔لفظ ’’ راجا‘‘ کو ہر دفعہ ’’راجہ‘‘ لکھا گیا ہے لیکن ایک جگہ انہوں نے ’’راجا‘‘ لکھا ہے جو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ کمپوزر شبہے کا شکار ہے۔ایک جگہ ’’ پٹے ‘‘ لکھا گیا ہے جسے ’’پتے‘‘ لکھنا چاہئے۔ایک جگہ’’ کیا‘‘ لکھا گیا ہے جبکہ اسے ’’کا‘‘ لکھے جانے کی ضرورت تھی۔ایک سطر میں ’’ کام لے‘‘ لکھا گیا ہے جسے ’’ کام کے لئے‘‘ لکھنا درست ہوتا۔مقالہ تحریر کرتے ہوئے کمپوزر نے ایک ہی بات کو دوبار تحریر کر دیا ہے۔ میری سوچ یہ ہے کہ کمپوزر کو بھی اردو زبان میں طاق ہونا چاہئے اور اسے جہاں کہیں بھی غلطی ہونے کا امکان ہو فوراً لغت سے رجوع کرنا چاہئے۔ ملاحظہ کریں…….’’ویشالی سے ویشالی سے تقریباً….‘‘ آگے ’’نا ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ لفظ ’’ نہ ‘‘ کا استعمال درست ہوگا۔’’……..اردو والے اپنی نئی نئے نسل کو اردو کیاں نہیں پڑھا رہے ہیں؟‘‘ منھ چڑھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔اس جملے کو اس طرح تحریر ہو نا چاہئے۔اردو والے اپنی نئی نسل کو اردو کیوں نہیں پڑھا رہے ہیں؟ افسوسناک کو الگ الگ لکھا گیا ہے۔فکر انگیز کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے جسے ’’فکر انگیزیت‘‘ تحریر کیا گیا ہے۔لفظ’’ ناطے‘‘بھی لکھنا غلط ہے اسے ’’ ناتے‘‘ لکھا جانا چاہئے۔ایک جگہ ’’ اجتماعی کاششوں ‘‘ لکھا گیا۔’’ کیبہت‘‘ لکھنے سے بھی قاری کوبات سمجھ میں نہیں آئی ہو گی۔لفظ ’’مائیکہ‘‘ بھی اِس طرح ہوگا ’’مائیکا‘‘۔دیگر اور بھی بہت ساری غلطیاںپروف ریڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے رہ گئی ہیں جسے قلم بند نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ اس سے اس جریدے کی خوبصورتی پہ داغ آجانے کی توقع تھی لہٰذا اس سے قطع نظر کیا گیا ہے اور یہ رسالہ اپنے آپ میں ویشالی ضلع اردو سیل حاجی پور(ویشالی) کی پہلی پیش کش سنگ ِ میل سے تعبیر کی جائے گی۔
عبدالستار ولی مَینشن،سعدپورہ قلعہ،مظفرپور 9835666622