زمانہ لوٹ آیا تھا زمانہ لوٹ آیا تھا 

0
0

افسانہ نگار: –  وزیر احمد مصباحی (بانکا)  ریسرچ اسکالر:جامعہ اشرفیہ مبارک پور
رضیہ کی شادی ہوئے تقریباً ایک ڈیڑھ دہائی کا عرصہ گزر چکا تھا. وہ تھی تو ایک غریب گھرانے سے پر وہ قسمت کی سکندر نکلی تھی. اسے ایک پڑھا لکھا صوم و صلاۃ والا بالکل گورا نارا لڑکا ملا تھا. اسی لیے شاید اب وہ دیہات سے نکل کر کوسوں دور کہیں کسی ترقی یافتہ شہر میں اپنے شوہر اور چار جگر پاروں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی تھی. وہ گاہے بگاہے اپنے میکے فون بھی ملا لیا کرتی تھی اور اپنے ابو سے بات چیت کرکے بڑی فرحاں و شاداں رہا کرتی تھی.ہاں!اس کی زندگی کی نیّا بلا خوف و خطر زمانہ کے تھپیڑوں سے دامن بچا کر ساحلِ منزل کی طرف رواں دواں تھی.      چار جگر پاروں میں دو بڑی بیٹی اور دو چھوٹے چھوٹے بیٹے بھی تھے. بیٹیاں شعور و آگہی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی تھیں. بڑی بیٹی” ریشمہ ”میٹرک کا فائنل امتحان دے چکی تھی. بس رزلٹ کا انتظار تھا، تا کہ وہ کسی انٹرمیڈیٹ اسکول میں نماکن کرا سکے. اس کی چھوٹی بہن ”لاڈلی” بھی جو کلاس سات /آٹھ میں پڑھ رہی تھی، بڑی ذہین و زیرک تھی. ہر سال کلاس ٹاپ کرنے کے ساتھ ساتھ اسکول تک بھی ٹاپ کر لیا کرتی تھی. محلے بھر میں دونوں بہنوں کی تعلیمی ترقی و ذہنی توانائی ہر عوام و خواص کے لیے کسی نہ کسی جہت سے ضرور ایک وقت موضوع گفتگو بن ہی جایا کرتی تھیں. لاڈلی و ریشمہ کے والدین بھی پھولے نہیں سماتے تھے. وہ اب تک اپنی دونوں بیٹیوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلانے کے بیشمار سنہرے خواب بھی دیکھ چکے تھے، چاہے اس کے لیے انھیں مزودری ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائے…پر وہ اسے شرمندہ تعبیر ضرور کریں گے.       خیر… سچ بتاؤں تو وہ شام رضیہ کے لیے بڑی کربناک تھی، جس میں اس کے میکے والوں کی طرف سے گھنٹی بجی. بڑی بیٹی ریشمہ، جو فون ہی کے پاس بیٹھے اپنا ہوم ورک کر رہی تھی، جھٹ سے کال ریسو کی. اسکرین پہ ننھیال کا نمبر شو کرنے کی بنا پر، اس نے فون امی کو دے دی. امی رسوئی گھر میں مصروف تھی…رضیہ: ہیلو! کون اسلم؟ (رضیہ کا چھوٹا بھائی جو گاؤں ہی میں اپنے ضعیف و ناتواں ابو کے ساتھ رہ رہا تھا اور گھر کی دیکھ ریکھ کیا کرتا تھا)اسلم: ”جی ہاں! آپا میں اسلم ہی بول رہا ہوں. ان دنوں والد صاحب کی طبیعت بہت سخت علیل ہے آپا!!!_ رہ رہ کر ہاڈ پریشر کا ان پر حملہ ہوتا ہے اور وہ بے قابو ہو جایا کرتے ہیں. کبھی کبھار تو اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ میں ابو کے نفس پر خوف کھانے لگتا ہوں اور میری ساری بچی کُھچی ہمت جواب دینے لگ جاتی ہیں. آپا! مجھے تو اکثر ذمہ داریوں کے سبب گھر کے باہر ہی رہنا پڑتا ہے، اس لیے اب مجھ سے ابو کی ٹھیک طور پہ خدمت نہیں ہو پاتی. اس لیے آپ یہیں شفٹ ہو جائیے نا. ابو بھی بڑی اصرار کے ساتھ یہ کہ رہے تھے کہ:آپ اپنے بال بچوں کے ساتھ اس وقت تک یہیں سکونت اختیار کر لیں، جب تک وہ صحت یاب نہ ہو جائے ”.    رضیہ جو اب تک اپنی آنکھوں تلے دونوں بیٹیوں کی تابناک مستقبل کے حوالے سے اکثر من ہی من سوچ سوچ کر  پھولے نہیں سماتی تھی، اس فون نے تو مانو جیسے اس سے یہ سارا سامان انبساط ہی چھین لیا ہو. گاؤں دیہات میں ویسے بھی شہروں کی طرح اسکول و کالجز کہاں ہوا کرتے ہیں. یہاں تو بچے گاؤں کے ہی سرکاری اسکول میں اکثر کچھ کلاس تک پڑھائی کر پاتے ہیں کہ اسے غربت و افلاس کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پڑتے ہیں اور وہ دو وقت کی روٹی کمانے معاش و معیشت سے اپنا غیر ترقی یافتہ گاؤں چھوڑ کر پردیس کو نکل پڑتے ہیں، تاکہ زندگی کے صبح و شام بخیر گزرے. پر ادھر در صورتِ فون بوڑھے باپ کے پیہم اسرار اور بھائی کی عرضی بھی تو اسے ہجرت کے لیے مجبور کر رہی تھی. اس لیے رضیہ نے چار و ناچار اپنے شوہر نامدار سے گاؤں جانے کی رخصت مانگی اور اپنے دونوں بیٹوں کو وہیں چھوڑتے ہوئے بس بیٹیوں سہارے اسی رات ایک ایکسپریس ٹرین سے  مئیکے کے لیے رختِ سفر باندھ لی…     رضیہ کو مئیکے آئے ہوئے تقریباً پندرہ روز گزر چکے تھے. وہ بستر مرگ پہ پڑے باپ کی خوب دھیان رکھتی تھی، وقت پر کھانا، پانی، دوائی اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی. بھائی گھریلو ذمہ داری کے سبب تو اکثر باہر ہی رہا کرتے. گاؤں کے لوگ تو دن بھر اپنے کاموں میں مصروف ہوتے، شام ہوتے ہی وہ جلد کھانا کھا کر سو جاتے اور پھر دوسری صبح سورج نکلتے ہی اپنے کھیت کھلیان کی اور چل نکلتے. یہاں تو بجلیاں بھی نہیں تھیں. لوگ لالٹین اور ڈبیہ ہی سے اپنے گھر، آنگن و دوار ڈیڑھی کو روشن کر لیا کرتے. ریشمہ و لاڈلی تو اکثر اپنے کیریئر کو لے کر اس خیال میں گُم ہو جاتیں کہ:یہ امی جان بھی نا کہاں آ کر پھنس گئی ہے؟ ”.شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک محلے اور پڑوس میں جہاں اس کی اپنی کوئی سہیلی نہیں بن پائی تھی وہیں وہ شہری آپ و ہوا سے بھی محروم ہو چکے تھے. پکی سڑکیں اور روڈ پہ دوڑتی تیز رفتار گاڑیوں کے دیدار تو یہ بھول ہی چکے تھے. دھیرے دھیرے تعلیم و تعلم کے سارے وسیلے و راستے بھی سمٹ گیے… اور… اور اب تو وہ دونوں گھریلو کام کاج ہی کے اسیر ہو کر رہ گیے تھے. ماں… بس نانا جان کی خدمت و دیکھ بھال میں ہی صبح سے شام اور شام سے صبح کرتی تھی… پر کیا کیجیے قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا.منگل کا دن تھا. آج بھائی دن چڑھے ہی کام پر نکل چکے تھے. ادھر رضیہ اپنے بیمار باپ کے لیے جلپان تیار کرکے، اب بس اس کے پاس جانے ہی والی تھی کہ بڑی بیٹی نے یہ جانکاہ خبر سنائی… امی… امی دیکھیں نا… نانا جان ذرا بھی حرکت نہیں کر رہے ہیں… یہ سن کر رضیہ دوڑتی بھاگتی اپنے والد کے کمرہ میں پہنچی… پر… اب جب کہ پہنچی… اس وقت تک روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی. ہاں! یہ خبر پھیلتے ہی پورے گھر میں ماتم سا چھا گیا. رضیہ نے روتے بلکتے اپنے چھوٹے بھائی، جو ابھی چند ثانیے قبل ہی مزدوری پر نکلے تھے فون ملایا اور جلد از جلد واپس ہونے کو کہا.    بھائی جب گھر پہنچا اسے اس حادثہ فاجعہ پہ ذرہ بھر بھی یقین نہیں آ رہا تھا. خیر کسی طرح دھیرج باندھتے ہوئے صبر و شکیب سے رشتہ جوڑا اور اپنے پورے رشتے دار میں خبر دینے کے ساتھ ساتھ گاؤں کی مسجد میں بھی اعلان کروا کر وقت جنازہ کی خبر دے دی. رشتے دار قریب ہونے کی وجہ سے سب کے سب چار پانچ گھنٹوں کے اندر ہی پہنچ چکے. سبھوں نے تلقینِ صبر جیسے اخلاقی فریضے سی سبکدوشی حاصل کی اور پھر جلد ہی اس نے اہل سماج و رشتہ داروں کے ساتھ اپنے مرحوم باپ کو اللہ کے گھر پہونچا دیا…      خیر اب تک جو ہونا تھا سو وہ ہو چکا تھا. گزرتے ایام کے ساتھ رضیہ اور اس کے بھائی کے دلوں سے چپکے غم و اندوہ سے بھری یادیں بھی ضروریات کے پیچ و خم میں گم ہو کر نامعلوم طور سے چھٹنے لگی تھیں. اس کی جگہ فرحت و کیف آگیں لمحات قبضہ کیے جا رہی تھیں. زخم مندمل ہونے کو تھا اور ایک دفعہ پھر سے زندگی اپنے معمول پر بحال ہونے کی تھی…پر… پر رضیہ پہ تو ایک اور غم کا پہاڑ اس وقت ٹوٹ گیا جب اس کے بھائی نے چند مہینے ہی گزرنے کے بعد ہر شام ڈھلتے ہی یہ کھری کھونٹی سنانی شروع کر دی تھی کہ:دیکھ رضیہ بہن! اب ابو اس دنیا میں نہیں رہے، انھوں نے اپنی خدمت ہی کے لیے تمھیں یہاں بلایا تھا. اس لیے آپ اپنا شہر چلی جائیں یا پھر کہیں دوسری جگہ انتظام و انصرام دیکھ لیں… مجھ سے یہ روز روز کا خرچ نہیں اٹھایا جاتا وغیرہ وغیرہ ”. رضیہ کیا کرتی؟ مانیں تو وہ اب تک اس گاؤں میں ایک اجنبیہ سی ہی تھی. اُدھر اس کے شوہر نامدار کی ملازمت بھی چھوٹ چکی تھی… اور پھر یہ کہ وہ تو شہر کی مہنگائی کے باوجود بھی اپنے دو لڑکوں کو پال پوس رہے تھے اور جہاں تک ہو رہا تھا اسے زیور علم سے لیس کرنے کی حتی المقدور کوششیں بھی کر رہے تھے… رضیہ بھائی کے یہ تیور دیکھ کر بے چین سی ہو گئی تھی. وہ تو اکثر اپنے گزرے شہری پرسکون ایام کو یاد کرکے رو پڑتی تھی… آخر وہ کر بھی کیا سکتی تھی. کبھی کبھی تو نڈھال ہو کر دلی بھڑاس نکالنے اور غم کو ہلکا کرنے خاطر اپنے بھائی سے یہ بھی کہ ڈالتی کہ:”ہاں بھائی! کبھی میرا بھی زمانہ آئے گا”. روز روز بھائی کے طعنے ایسے توانا ہوتے دکھ رہے تھے کہ جو کسی بھی سنجیدہ طبیعت کی جان لینے کے لیے کافی ہو. آخر کار اس نے گاؤں ہی کے چند معتمد علیہ معمر شخصیات کو ساتھ لیا، پنچایت بٹھائی اور بھائی سے مفاہمت و مصالحت کے بعد روڈ کنارے ہی ایک جھونپڑی بنا کر دونوں بیٹیوں کے ساتھ جو اب دور شباب پر قدم رکھنے کو تھیں، زندگی گزر بسر کرنے لگی. جس طرح بھی ہو زندگی کے صبح و شام کٹ رہی تھیں. اب تو وہ محنت و مزدوری بھی کرنے لگی تھی، آخر تین پیٹوں کی آگ بجھانے کا  سنگین مسئلہ جو ہر لمحہ اس کے سامنے منہ پھیلائے کھڑا رہتا تھا…لیکن اس کے باوجود بھی کبھی کبھار رضیہ کی جھونپڑی میں فاقہ کشی کی نوبت آ پہنچتی تھی مگر… مگر اس کے سخت دل بھائی پر ہمدردی و غمخواری کے ایک بَل بھی دکھائی نہیں پڑتے… ہائے رے یہ وقت کی نیر رنگی!!! سال دو سال گزرتا گیا. گردش ایام کی منجدھار میں وہ کسی طرح اپنی کشتی بچاتی رہی کہ کہیں ساحل سے جا لگے. آخر کار وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے رضیہ کے حق میں سیدھی راہ ماپ ہی لی. مانو تو جیسے زمانہ کی خوشحالی و مرفہ حالی رضیہ کی قسمت یابی کے سوغات لیے اس کے دروازے پر اجازت مرحمت مانگ رہی ہوں. معاشرے میں اسے لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے بھی دیکھنے لگے تھے. دونوں بیٹیاں بھی لجاجت و حیا کی پیکر مجسم بن چکی تھیں. رضیہ تمام تکالیف برداشت تو کر لیتی. پر ایک بات ہے کہ وہ دونوں بیٹیوں کو گھر سے ایک قدم بھی بیپردہ نکلنے کی اجازت نہیں دیتی. اسلامی رنگ و ریت تو دونوں پر غالب تھی ہی کہ والد صاحب نے اسلامی تعلیم کے حوالے سے سچی پکی پرورش جو کر دی تھیں. اِدھر والد محترم کی بھی، جو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ شہر ہی میں مقیم تھے. اب ایک رائل جاب (ملازمت) لگ چکی تھی. دونوں صاحبزادے اس عمر میں داخل ہو چکے تھے کہ جہاں پر پہنچتے ہی سماج و معاشرے میں لڑکوں کی ذات سے لڑکی والوں کی ہزاروں امیدیں اور آرزوئیں وابسطہ ہو جایا کرتی ہیں، تا کہ وہ کسی طرح موقع ملنے یا پھر کسی طرح کا کوئی سراغ لگنے پر بات چلا کر اس سے اپنی بیٹی کا ہاتھ پیلا کر دیں. بڑا بیٹا وہیں شہر ہی کے کسی بڑی کمپنی میں جاب کرتا تھا اور چھوٹے کی تو ابھی تعلیمی سلسلہ جاری تھا… رضیہ کو تو اب شوہر نامدار سے ہر ماہ ایک اچھی خاصی رقم موصول ہونے کے ساتھ ساتھ بیٹے کی کمائی نے بھی اسے کڑی دھوپ و سرد کے موسم میں دوسروں کے کھیت کھلیان میں جا کر محنت و مزدوری کرنے سے سبکدوش کر دیا تھا. ہاں! اب حالات بدل چکے تھے.      پر ادھر کچھ سالوں پہلے ہی رضیہ کے چھوٹے اکلوتے بھائی اسلم کی شادی ہو چکی تھی. اس کے آنگن میں تو رنگ برنگے پھول بھی کھل چکے تھے. پر وہ ہفت نفری اہل و عیال ہونے کی بنا پر کافی ٹینشن میں رہتے. ایک تو بیگم صاحبہ کے ناز و نکھرے اٹھانا وہیں اکیلے تین چار بچوں کی پرورش و پرداخت بھی کرنا اس کے لیے کوئی آسان کام نہیں. وہ تو اکثر روز روز کے جھمیلوں سے تنگ  آکر اپنے ننھے ننھے بچوں پر زود و کوب بھی کرنے لگتا… پر…. پر ہاں! رضیہ سے اپنے بھائی کی یہ حالات زار ایک آنکھ نہ دیکھی جاتی، وہ تڑپ اٹھتی اور اپنے ذاتی خرچوں سے بہت سارے روپیے پیسے و راشن بچا کر اپنے بھائی کے گھر پہنچا آتی. مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کی قوی وجہ کیا ہے؟ ہاں! اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ اب ”زمانہ لوٹ آیا تھا”.
#نوٹ:–  اس میں تمام کردار فرضی ہیں… کسی کی ذاتی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں…
[email protected] رابطہ نمبر: 6394421415

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا