بیٹیاں تو پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

0
0

بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ جس گھر میں پیدا ہوتی ہیں۔ اس گھر کے دروازے پر آکر فرشتے خوشخبری سناتے ہیں۔ کہ اب اس گھر کے مکینوں کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول نے لے لیا ہے۔ یہ بیٹیاں جو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ماں کے دل کا ٹکرا ہوتی ہیں ان کی مسکراہٹ گھر میں بہار لے آتی ہے ان کی نٹ کھٹ میٹھی میٹھی حرکتیں سب کے لی? خوشی کا باعث ہوتی ہیں۔ کبھی یوں ہی بے سبب روٹھ جاتی ہیں اور خود مان بھی جاتی ہیں۔بیٹیاں گھر کے باغوں کے پھول ہیں انہیں کے دم سے رونق ہے گلشن میں بہار ہے۔
یہ ننھے معصوم کلیاں والدین کی شاخوں پر جنم لیتی ہیں۔ماں کی آنکھوں کا نور ہیں… تو باپ کے دل کا سرور ہیں…۔گھر کی بہار ہیں… ہر طرف پیار مہکا دیتی ہیں…۔ بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں….کبھی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتی ہیں…۔دلوں کی چاہت ہوتی ہیں…۔دلوں کے زخم مٹانے کے لئے گھر آنگن میں شبنم کی بوندوں کی طرح ٹپکتی ہیں۔….ٹھنڈی چھاؤں جیسی ہوتی ہیں….۔کبھی رنگ برنگی تتلیوں کی طرح تو کبھی چہکتی چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں…..۔تنہائی میں رنگ بھرتی ہیں…۔ کبھی ہنساتی ہے…. تو کبھی رلاتی ہیں۔..۔۔۔۔بہت ہی مہربان۔۔۔۔وفا کی مورت ہوتی ہیں۔۔۔۔۔بیٹیاں تو خوابوں کی تعبیر جیسی ہوتی ہیں۔ بیٹیاں تو ثمر ہے دعاؤں کا۔ کبھی چھوٹی بھی بڑی لگتی ہیں تو کبھی بڑی بھی چھوٹی لگتی ہیں۔
پھول جب ڈالی سے ٹوتتا ہے تو مرجھا کر بکھر جاتا ہے لیکن بیٹیاں تو وہ پھول ہیں جو والدین کی ڈالی پر جنم لیتی ہیں۔۔۔۔۔ ٹوٹتی ہیں مگر سوکھتی نہیں۔۔۔۔اور مرجھاتی بھی نہیں۔۔۔۔ بلکہ دوسرے گلشن کو آباد کرتی ہیں۔ ماں باپ کے گھر سے بچھڑ کر اس آ نگن کو اداس کر کے دوسرے آنگن کو رنگوں سے بھر دیتی ہیں۔گھر کو سنوار کر جنت بناتی ہیں۔ ان پھول جیسی بیٹیوں کو بس مہکتے رہنا ہیں۔۔۔انہیں تو خوشبو پھیلانا ہے۔ اجنبی رشتوں کو ان کہی باتوں کو سمجھنا ہوتا ہے۔
بیٹیوں کی پیدائیش پرکئی لوگ ہمدردی جتاتے ہیں، جو ہمدردی جتاتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ بیٹی رحمت ہوتی ہیں۔انمول تحفہ ہوتی ہیں ربِ کائنات کا،بیٹی کی حفاظت اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بیٹی قیمتی خزانہ ہوتی ہے،ماں باپ بیٹی کی ذمہ داری سے نہیں گھبراتے بلکہ اس کے اچھے نصیب کیلئے فکرمندہوتے ہیں۔پتہ نہیں جس گھرمیں جائیگی،کیسے لوگ ہونگے؟بیٹی کاخیال رکھ پائیں گے یانہیں بیٹیاں توبابل کی رانیاں ہیں ماں کی پرچھائیں ہوتی ہیں۔
آج معاشرے میں بے حیائی پھیل گئی ہے۔ان پھولوں کو بے دردی سے روندھا جارہا ہے مسلا جا رہا ہیاور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ ان پھولوں کو کچلا جارہا ہے۔یہ ننھے نازک پھول کہیں پر بھی محفوظ نہیں۔ یہ فحاشی بے حیائی کس نے معاشرے میں پھیلائی اور ایسی پھیلائی کے جس نے نوجوان نسل کو ذہنی ہیجان میں مبتلا کیا – ان کو جنس زدہ کر دیا اور اس سے نکلنے کے جائز راستے بند کر دیے۔ زنا کرو یا ریپ۔۔۔۔۔ راہ چلتی کسی بھی لڑکی کو اٹھاؤ یا بالجبر کسی کی عزت پامال کرو۔۔۔بے آبرو کرو۔یہ معاشرہ نہ جانے کس طرف جارہا ہے۔اب تو ایسا لگتا ہے کے ہمارے پاس دو ہی راستے رہ گئے ہیں یا تو بیٹیوں کو گھر بٹھا کے علم سے دور رکھ دیا جائے یا اسکول۔۔۔۔کالج بھجوائیں۔۔۔۔ علم دیں۔۔۔ لیکن خود اپنی زندگی کا رسک لے کر۔کیونکہ بیٹیاں ہر جگہ لْٹ رہی ہیں۔۔۔۔۔ بہنوں کی چادریں محفوظ نہیں۔۔۔۔ہمارے سیاست دان معصوم بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے مجرموں کو تحفظ فراہم کر رہیں ہیں۔اب تو یہ بولنا پڑے گا بیٹی چھپاو بیٹی بچاو۔اگر آنسوؤں کے سمندر کو پلکوں کے کنارے روک سکتے ہیں تو روکیں اور بتائیں کے جب بیٹیاں لٹ جاتی ہیں تو والدین اپنا دکھ کسے بتائیں؟؟؟؟ کیسے وہ ماں باپ خود پر قابو پاتے ہونگے۔جس پر بیتتی ہے۔۔۔۔جس کی گود اجڑتی ہے بس وہ جان سکتا ہے۔ان ماں باپ کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے لئے زمین و آسماں لرز اٹھے ہوں۔ہمارے بچوں کو ذرا سی کھروچ بھی آئے تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں تو سوچئے ان ماں باپ کا کیا حال ہوتا ہوگا جن کی بچیوں کے ساتھ وحشت کا ننگا ناچ کھیل کر ماڑ دیا جاتا ہے۔ ننھی معصوم کلیوں کی لاشوں کو دیکھ کر شاید فرشتے بھی آنسو بہا رہے ہونگے۔اور شیطان خوشی سے جھوم رہا ہوگا۔کیونکہ آج کچھ انساں کہلانے والے درندوں نے۔۔۔جنگلی خون خوار جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور وحشت کا ایسا ننگا ناچ کھیل رہے ہیں جس سے انسانیت لہو لہان ہوگئی ہے۔ عذاب تو مرنے کے بعد ملتا ہے نا!!! کیا یہ جو ہو رہا ہے وہ عذاب سے کم ہے؟؟؟ یا اللہ اس دنیا کے عذاب سے حفاظت فرما۔

 

سیدہ تبسم منظور ناڈکر۔ممبئی
نائب ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال اسٹار نیوز ٹو ڈے
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال ہندوستان اردو ٹائمز
9870971871

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا