التجا مفتی کی سول و پولیس انتظامیہ سے بذریعہ مکتوب التجا
یواین آئی
سرینگر؍؍سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے یہاں سول و پولیس انتظامیہ کو ایک مکتوب بھیجا ہے جس میں انہوں نے ‘مفتی خانوادے’ کو 7 جنوری 2020 کو پی ڈی پی کے بانی و سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید کی چوتھی برسی کے موقع پر جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ میں واقع مرحوم مفتی سعید کے مزار دارا شکوہ پارک (پادشاہی باغ) جانے کی اجازت طلب کی ہے۔پی ڈی پی ذرائع نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ التجا مفتی نے جمعہ کے روز ایس ایس جی کے ڈائریکٹر جنرل منیر احمد خان اور ضلع مجسٹریٹ سری نگر ڈاکٹر شاہد اقبال چودھری کو ایک مکتوب بھیجا اور 7 جنوری کو اپنے نانا مرحوم مفتی محمد سعید کی چوتھی برسی کے موقع پر مفتی خانوادے کے اراکین کو بجبہاڑہ میں واقع دارا شکوہ پارک جانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے کہا: ‘چونکہ پارٹی صدر محبوبہ مفتی سمیت تمام اعلیٰ قائدین ہنوز نظر بند ہیں اس کے پیش نظر مرحوم مفتی صاحب کی برسی کے موقع پر کوئی بڑی تقریب یا بڑا جلسہ منعقد نہیں ہوگا’۔ذرائع نے یو این آئی اردو کو مکتوب کا متن بھی پڑھ کر سنایا جس میں التجا مفتی نے لکھا ہے: ‘جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 7 جنوری کو میرے محبوب نانا مفتی محمد سعید کی چوتھی برسی ہے۔ ہماری فیملی اس دن بجبہاڑہ میں واقع ان کے مرقد پر حاضری دینا چاہتی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں وہاں اس دن جانے دیا جائے’۔ انہوں نے لکھا ہے: ‘جب میں نے جمعرات کو بجبہاڑہ جانے کی کوشش کی تو مجھے وہاں جانے نہیں دیا گیا اور اپنے گھر پر ہی نظر بند رکھا گیا۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ کشمیر میں صورتحال نارمل ہے تو ہمیں 7 جنوری کو بجبہاڑہ جانے سے روکنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے’۔ انہوں نے مزید لکھا ہے: ‘مجھے امید ہے کہ آپ ہماری اس گزارش کو مسترد نہیں کریں گے کیونکہ یہ دن ہمارے لئے انتہائی اہم ہے۔ اگر ہمیں اس دن وہاں جانے نہیں دیا گیا تو یہ باعث افسوس ہوگا کیونکہ مفتی صاحب کی چوتھی برسی پر ان کے مرقد پر حاضری دینا ہمارا حق ہے’۔ادھر التجا جو پانچ اگست سے اپنی والدہ محبوبہ مفتی کا ٹویٹر کھاتہ ہینڈل کررہی ہیں، نے یو این آئی کو بتایا کہ حکومت اگر محبوبہ جی کو بجبہاڑہ جانے نہیں دینا چاہتی ہے تو کوئی بات نہیں لیکن مفتی خانوادے کے دیگر اراکین کو تو جانے دے۔ انہوں نے ساتھ ہی حکومت سے انہیں فراہم کردہ سیکورٹی واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ‘سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میرے لئے باعث ہراسانی ہے۔ میں حکام سے مطالبہ کرتی ہوں کہ مجھے فراہم کی گئی سیکورٹی واپس لی جائے’۔مفتی محمد سعید 7 جنوری 2016 کو نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ اس وقت جموں وکشمیر میں پی ڈی پی – بی جے پی مخلوط حکومت کی بحیثیت وزیر اعلیٰ قیادت کررہے تھے۔ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ ملک کے پہلے مسلم وزیر داخلہ بنائے گئے تھے۔جموں کشمیر کے سیاسی افق پر قریب نصف صدی تک سایہ فگن رہنے والے مفتی سعید کی برسی پر 2017 سے ہر سال ان کے مزار پر اجتماعی فاتح خوانی ہوتی تھی اور جلسہ منعقد ہوتا تھا جس میں پارٹی کے چوٹی کے رہنمائوں سے لے کر بنیادی سطح کے کارکنوں تک سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے اور مرحوم مفتی سعید کی حیات اور سیاسی کارناموں پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی تھی۔ التجا مفتی نے جمعرات کو اپنے نانا مرحوم مفتی سعید کے مرقد پر حاضری دینے کی کوشش کی تھی تاہم ریاستی پولیس نے ان کی اس کوشش کو ناکام بناتے ہوئے انہیں گپکار میں واقع اپنی ماں کی رہائش گاہ پر نظربند کردیا۔ محترمہ مفتی کی بیٹی نے بعد ازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کا منصوبہ بنایا تاہم ریاستی پولیس نے اس منصوبے کو بھی ناکام بناتے ہوئے گپکار کی طرف جانے والی سڑکیں سیل کیں۔ بتادیں کہ پانچ اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کا اعلان کیا۔اس اعلان سے قبل ہی نیم شب کو ہی جموں کشمیر اور لداخ میں مواصلاتی نظام کو بند کیا گیا تھا اور وادی کے مزاحمتی لیڈروں کے علاوہ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈروں بشمول سابق تین وزرائے اعلیٰ داکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو خانہ یا تھانہ نظر بند کیا گیا جن میں سے اگرچہ بعض لیڈروں کو رہا کیا گیا لیکن اکثر ابھی بھی زیر حراست ہی ہیں۔