شائستہ نوشین،حیدرآباد8123338996
قرآن مقدس میں جہاں انسانی زندگی کے ہر ایک زاویے کی رہنمائی موجود ہے وہیں تمام معاملات میں فسادات برپا ہونے کے بعد ان میں اصلاح کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس اصلاح کی ذمہ داری بھی تمام لوگوں پر عائد کی گئی ہے۔ اس ذمہ داری میں بھی کچھ اہم ترین اصولوں کو ذکر کیا گیا ہے جن میں سر فہرست یہ حکم ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں اور تمھارا نہ کرنے والے کاموں کے تعلق سے گفتگو کرنااللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔‘‘ اس اہم ترین نکتے کو اگر ہم اپنے ذہن میں رکھ کر اپنے سماج اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں علم ہوگا کہ ہم میں سے اکثریت اس حکم کی تعمیل سے قاصر ہے۔مثال کے طور پر صرف ایک چیز پر غور کریں کہ کیا آج کے مسلمانوں میں سیرت النبیؐ کا عکس موجود ہے؟ آج کے تعلیم یافتہ مسلمان بے حد مضامین اور مقالے لکھ رہیں ہیںسیرت النبیؐ پر لیکن کیا وہ مضامین اور مقالے کتابی شکل میں شائع ہونے یا سمیناروں میں پڑھنے تک ہی محدود ہیں؟ یا صرف اپنی واہ ! واہی کے لئے لکھے جارہے ہیں؟ آج کے دور کے مسلماں جو ہر طرف سے پریشان ہیں علم و دولت و کامیابی ہر چیز میں پیچھے ہیں اُس کی وجہ کیا ہے؟ ہم نہ دنیا کے ہوئے نہ دین کے رہے ۔ ایک وقعہ یاد آ رہا ہے بیان کرتی ہوں ـ’’ ایک بار صحابہ کرامؓ اور محمدﷺراستہ سے گزر رہے تھے راستہ میں اُنہیں ایک پتھر نظر آیا تو محمدﷺ نے رک کر اُس پتھر کو کنارے کردیا اور اپنے صحابیوںؓ سے فرمایاکہ اگر راستہ میں تمہیں کوئی رکاوٹ دکھے تو تم اُسے ہٹا دوتاکہ تمہارے بعد جو آئے اُسے پریشانی نہ ہو ۔ آپ ﷺ نے اسے ایمان کا ایک حصہ قرار دیا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس بات پر اتنا عمل کیا اتنا عمل کیا کہ کئی سالوں کے بعد ایک یہودی کا گروپ ایک راستے سے گزر رہا تھا راستہ میں ایک پتھر گرا ہوا دیکھتا ہے تو اُس پتھر کو دیکھ کر بولتا ہے کہ شائد اِس راستہ سے مسلمان نہیں گزرا‘‘۔۔۔۔ ماشاء اللہ وہ تھے اسلام و ایمان کے اصلی شیدائی، ایسے مسلمان تھے جن کی مثال یہودی لوگ بھی دیا کرتے تھے۔آج کہیں بم پھٹ جائے تو کہتے ہیں شائد مسلمان ہی ہوگا کہیں بھی گولیاں چلتی ہیں تو کہتے ہیں مسلمان ہی ہوگا‘کیوں؟ کیونکہ آج کے مسلمانوں کی عادتیں خراب ہوچکی ہیں، وہ صبر و ضبط، وہ اخلاقی اقدار باقی نہیں‘ بات بات پر غصہّ‘ بے ادبی سے بات ، جاہلانہ رویہ غرضیکہ ہمارے اندر نبوی سیرت کا کوئی ایک عنصر بھی موجود نہیں ہے ۔ آج کے مسلماں صرف سیرت النبی ؐ پر مضامین ‘مقالے اور کتابیںتیار کرنے میں مصروف ہیں، عمل سے دور ہوکے رہ گئے کسی کے اندر سیرت النبیؐ موجود نہیں، بیوی کے حقوق نہ شوہر کے حقوق نہ رشتے داروں میں محبت نہ پڑوسی کے حقوق ‘ نہ بے زباں جانوروں سے محبت نہ شفقت ۔حضورﷺ غیر مسلم سے بھی اخلاق سے بات کرتے تھے، محبت سے پیش آتے تھے پر آج کے مسلمان بھائی بھائی میں بھی محبت نہیں رہی اپنے ہی فرقوں میں بٹ کے رہ گئے مسلماں۔ سیرت البنیؐ تو ہر فرقیکے لئے ایک ہی ہے کم سے کم اگر ہم وہی اپنالیتے، کم از کم مسلمانوں کے اخلاق ایک ہو جاتے تو شاید ہماری موجودہ صورت حال میں کافی سدھار آجاتا۔سیرت النبیؐ پر مضامیں‘ مقالے‘ یا کتابیں لکھنا ضروری نہیںان سب کی ہمارے پاس کمی بھی نہیں ہے دنیا میں ہر زبان میں بے شما رکتابیں سیرت النبیؐ پر موجود ہیں ۔اگر ہمیں اسلام کے لئے کچھ کرنا ہے تو ہمیں اپنے شب و روز میں سیرت النبیؐ کو رچانا بسانا ہوگا۔ سیرت النبیؐ کے مقالہ نگارخود اپنے کردار و اخلاق پر خاص توجہ دیں، تاکہ ان کو دیکھ کر جلسہ یا سمینار میں شرکت کرنے والے لوگ جو کم علم والے یا جاہل ہی کیوں نہ ہوں، کچھ اسلام کا علم سیکھیں۔سیرت البنیؐ کی حقیقت کردار سے ظاہر کریں تمام مقالہ نگاروں کے اخلاق تہذیب و کردار سے ہی لوگ سمجھ جائیں یہ مسلمان ہے عمل و کردار سے سیرت النبیؐ ظاہر ہو ۔ آج کل کے علم والے لوگ ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنی بڑائی دکھاسکیںلیکن ان کے اس عمل سے علم پھیلتا نہیں اُنہی تک رہ جاتا ہے ۔ الفاظ ایسے استعمال کریں کہ جاہل سے جاہل بھی سمجھ جائے اور اسلام کی حقیقت سیرت النبیؐ کی حقیقت دلوں تک پہنچ جائے ۔ عام طور پر سیرت النبی کے موضوع پر ہونے والے سیمیناروں کا حال یہ ہے کہ علماء اور ریسرچ اسکالرز مقالے تو بہت اچھے اچھے لکھ کر لاتے ہیں لیکن ان کے کردار و عمل سے سیرت النبی کی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔ عام طور پر سیمینار میں مقالہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فوٹو سیشن بھی چل رہا ہوتا ہے۔ سیمینار کے بعد بھی بڑی شخصیات کے فوٹو کھنچوانے میں ہر شخص آگے آگے رہنا چاہتا ہے۔ ایسے سیمیناروں میں شرکت کے لیے کافی کھینچ تان ہوتی ہے۔ گروہ بندیاں اور لابنگ کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ان تمام سماجی خرابیوں سے ہمیں مکمل طور پر پرہیز کرتے ہوئے اپنے کردار میں سیرت النبیؐکو بسانا ہوگا ‘ کتابوں میں سیرت النبیؐ کے مقالے چھپوانے سے یا سمینار میں سیرت النبی ؐ پر مقالے پڑھنے سے اللہ خوش نہیں ہوتابلکہ اگر ہم خود کے دل میں اور سارے مسلمانوں کے دلوں میں اور کردار میں سیرت النبی ؐ بسالیںتو دنیا میں بھی عزت ملے گی اور آخرت میں بھی کامیابی ملے گی ان شاء اللہ۔