محمد سلطان جونپوری
ہندوستان کی تاریخ قدیم ترین ہے، ہمارا اس سے رشتہ توطن بھی کوئی ۰۰۰۱برس پرانہ ہے، اس درمیان ہم نے اس وطن کو کیا دیا؟ کیا لیا؟اس کی فہرست بھی طویل ہے، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ہم نے اس ملک کو اپنا وطن سمجھا، اس کے تہذیب و تمدن سے وابستگی پیدا کی،اس کی خوبصورتی میں اضافہ کے ساتھ اسے سونے کی چڑیا بنانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا؛مصوری،موسیقی،علم و ادب کے ساتھ خاص کر محلات و قصور کے وہ انمٹ نقوش عطا کی کہ آج بھی وہ یادگار ہندوستان کو دنیا کی ابھری ہوئے سطح پر پیش کرتی ہیں،یقینا ہم نے سات سو سال اس ملک پر حکمرانی کی پھر زوال سے دو چار ہوئے،ملک کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں سے نکل کر بیرونی طاقتوں کی غلام بن گئی، لیکن حب وطن نے ہمیں اس حال میں بھی کسی کروٹ چین لینے نہ دیا، بالآخر اس کی آزادی اور عظمت رفتہ کی بازیابی کیلئے ہر ممکن کوشش شروع کی، کبھی شاملی کے میدانوں میں جام شہادت نوش کیا تو کبھی بالا کوٹ کی پہاڑیوں پر خوب داد شجاعت دی،ہزاروں کی تعداد میں پھانسی کے پھندے کو چوما،موقع ملا تو گولیوں اور بارودوں تک کو سلامی دی،خون کے آخری قطرے تک سے اس ملک کو شاداب کیا، مر کر بھی کبھی خاک کو کفن میں رکھا اور کھبی خاک پر کفن رکھ کر اس ملک سے وفاداری کا ثبوت دیا اور مدفن کی شکل میں بلند و بالا مقابر اس ملک پر نقش کر گئے،لیکن ملک کے وقار اور اس کی عظمت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، تا آں کہ۷۴۹۱کی ۵۱اگست کو ہندوستان کے لال قلعہ پر ہندو،مسلم،سکھ، عیسائی کی پہچان آزاد جھنڈا پھہرا دیا گیا۔ آج ہندوستان دو سو برس بعد آزاد تھا، ملک کی سیاسی و سماجی خستہ حالی لوگوں کے سامنے تھی،پنڈت جواہر لعل نہرو لال قلعہ کی فصیل سے ملک کے پیہ کو ترقی کی راہ پر دوڑانے کی بات کر رہے تھے،مجھے لگا کہ رو سخن ہماری طرف ہے،بڑھ کر ہاتھ تھام لیئے،اور ملک کی تقدیر لکھنے کو وزیر تعلیم کی پیش کش کر دی؛ وقت گذرتا رہا ملک کی فلاح و بہبود کے لئے ہمارا یوگدان جاری رہا، اس درمیان ہم نے اس ملک کو کیا کچھ دیا؟ مؤرخین نے اسے دو دفتیوں میں سمو رکھاہے۔ ہماری ملک سے دوستی یوں ہی نہیں صاحب! تعلیم ایمانی ہے، اسی محبت کا تو نتیجہ تھا کہ ہم نے ہزارقربانیوں کے باوجود زمام اقتدار ہاتھ میں نہ لے کر برادران وطن کے سپرد کر دیا، تاکہ لوگ کل کو ہمارے ایمان اور محبت پر شک کی نگاہ نہ ڈال سکیں،یہ سب محض اس ملک کی شادابی و خوشحالی کی خاطر ممکن ہو سکا! یہ اس لئے بھی ممکن ہو سکا تاکہ ہمارے ملک کی ایک پہچان ہو، نیز ہم دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ ہندوستان مختلف اقوام کا گہوارہ ہے اور سب مل کر اس ملک میں رہتے ہیں،ان میں بھائی چارگی مثالی ہے، اور ثابت کر سکیں کہ ہندوستان کثرت میں وحدت پر یقین رکھنے والا ایک انمول ملک ہے! لیکن کسے خبر تھی کہ ہمارے اس انداز محبت کو کل ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جائے گا، اور بڑی ہی خاموشی کے ساتھ ملک مذہبی تقسیم کے حوالے کر دیاجائے گا اور اس کے ہی چاہنے والے دشمن ٹھرا دئیے جائیں گے، کاش اندازہ ہوتا اور اسی وقت ہم کوئی لائحہ عمل مرتب کر سکتے! ہمیں افسوس ہماری خستہ حالی پر نہیں بلکہ ہندوستان کی تہذیب خوب کے قتل پر ہے، اس کی ہمہ گیری اور وسعت کے سمٹ جانے پر ہے، ہمیں افسوس اس پر بھی ہے کہ آج اس ملک کی باگ ڈور اس قاتل کے ہاتھ ہے کہ جو احترام انسانیت کے ساتھ اس کی شناخت تک کو ملیا میٹ کر دینے کے در پے ہے، اپنی آئیڈیا لوجی کے آگے ملک کی سیکیورٹی تک سے آمادہ کھلواڑ ہے؛طرفہ یہ کہ یہ تمام سر گرمیاں ملک کے سینے پر انجام دی جاتی رہیں،اور تمام آئینی پارٹیاں خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہیں۔ کیسے ممکن تھا کہ گردش زمانہ دیکھتے اور سہن کر جاتے، وہ بھی تب جب اس ملک نے بڑے آہ و اکراہ کے ساتھ ہمیں آواز دی ، ہمارے قدیم تعلقات کو للکارا ،ان تمام محبتوں کی یاد دلائی جو اسے ہم سے ملی تھی ، اور ان تمام محصولات کا واسطہ دیا کہ جسے استعمال کر ہم نے جسم و جاں کو پالا ہے؛ آخر کیسے ممکن ہے ہم آواز نہ ملائیں؟ضرور لبیک کہیں گے، وطن دوستی کا ثبوت ایک بار پھر دیں گے اور اس ملک کو دوبارہ پیار و محبت اور بھائی چارگی کی آماجگاہ بنائیں گے۔ غیروں سے تجھے ہم نے آزاد کرایا تھااپنوں سے بھی ہمیں تجھ کو آزاد کرائیں گے