غزل

0
0

محمد الیاس کرگلی 6005412339

بھری برسات میں باہر نہیں جاتے تو اچھا تھا
کسی کی یاد کو دل سے بھلا دیتے تو اچھا تھا
میں کیسے اس کو سمجھاوں، سمجھتا ہی نہیں یہ دل
بہل جاتے مگر اس کو سلا دیتے تو اچھا تھا
ان آنکھوں کا کروں میں کیا؟ کہ ہیں یہ منتظر کب سے
انہیں آتا ہے بس رونا، رلا دیتے تو اچھا تھا
یہاں تو آبرو زردار کی ہے بس زمانے میں
زمانہ! یہ روایت تم بدل دیتے تو اچھا تھا
زمانے کی ستم گاری ہے یا قسمت ہماری یہ
ہم ان کو بھولنے سے قبل مرجاتے تو اچھا تھا
متاثر ہو اگر میکاولی سے پاسبانِ ملک
کبھی یلغارِ مغرب بھی بتا دیتے تو اچھا تھا
ارسطو گر نہ ٹھکراتے تھے جب دستورِ افلاطوں
تو مغرب سوچتے مشرق میں ہم ہوتے تو اچھا تھا
کہ جب رومی نے مشرق میں جلائی شمع عرفاں کی
اگر اس شمع کو تابندہ رکھ لیتے تو اچھا تھا
فقط اقبالؔ نے مانا ہے دانا پیر رومیؔ کو
وہ درویشی اگر ہم بھی سمجھ جاتے تو اچھا تھا
اگر فیضی نہیں ہوتے جہاں دربارِ اکبر میں
تو شاہِ ہند یہ کہتے نکھر جاتے تو اچھا تھا
چلے جاتے ہو تم الیاسؔ اکثر شہر میں ان کے
گریباں چاک کرنے سے سنبھل جاتے تو اچھا تھا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا